یہ بات قابل تشویش ہے کہ پاکستان تحریک انصاف مزاحمت اور پروپیگنڈا گردی کی سیاست سے اس کے باوجود باز نہیں آرہی کہ اس پارٹی نے اس طرزِ عمل کی نہ صرف بہت بھاری قیمت ادا کی ہے بلکہ اس کی اعلیٰ قیادت کے اندر مختلف معاملات پر شدید اختلافات کی مختلف اوقات میں اطلاعات بھی آتی رہی ہیں ۔ گزشتہ روز پشاور میں مختلف سیاسی قائدین کے ساتھ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی زیرِ صدارت ہونے والی ایک ملاقات یا نشست کو سیاسی، صحافتی اور عوامی حلقوں نے اس تناظر میں ایک اہم اقدام قرار دیا کہ خیبرپختونخوا کو گزشتہ ایک دو برسوں سے سیکورٹی کے بدترین مسائل کا سامنا ہے اور اس نشست سے ان مسائل کے حل میں مدد ملے گی تاہم پی ٹی آئی نے حسب معمول اس اہم ایونٹ کو بھی پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال کیا اور ایک بار پھر ثابت کیا کہ جنگ زدہ صوبے کی حکمران پارٹی کو بدانتظامی کے علاوہ فرسٹریشن کا بھی سامنا ہے اور اس پارٹی سے کسی سنجیدہ طرز عمل کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ اس ملاقات میں دوسرے اہم قائدین کے علاوہ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور اور پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے اپنی پارٹی کی نمائندگی کی تاہم جب تصاویر جاری کی گئیں تو ان میں بیرسٹر گوہر کی تصویر نہیں تھی۔ بعد میں پتہ چلا کہ میزبانوں نے ان کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے ان کی فوٹو جاری نہیں کی تاہم اس بات کا تمام باخبر حلقوں کو علم تھا کہ بیرسٹر گوہر اس ایونٹ میں موجود تھے اور یہ ایک اچھا فیصلہ تھا۔ صورتحال اس وقت عجیب وغریب شکل اختیار کرگئی جب بیرسٹر گوہر جیسے نسبتاً سنجیدہ شخص نے میڈیا کو یہ کہنا شروع کردیا کہ وہ پشاور میں آرمی چیف سے نہیں ملے اور یہ محض افواہیں ہیں۔ یہ بات اتنے اعتماد سے کی گئی کہ جن لوگوں نے ان کی یقینی شرکت کی خبر دی تھی ان کو بھی اپنی سورسز پر شک ہونے لگا کیونکہ بیرسٹر گوہر سے اس نوعیت کی ” غلط بیانی” کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی۔ مضحکہ خیز بات یہ بھی رہی کہ عین انہی چند گھنٹوں کے دوران وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور یہ کہتے نظر آئے کہ بیرسٹر گوہر اور انہوں نے مذکورہ اجلاس یا ملاقات میں شرکت کی تھی۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اس لیول کے لیڈروں کے درمیان ایسے معاملات پر بھی کوارڈینیشن کا شدید فقدان پایا جاتا ہے اور یہ ایک دوسرے کے ساتھ یہ طے کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے کہ کس نے کونسی بات کہنی ہے۔
شام 8 بجے ایک ٹی وی پروگرام میں بیرسٹر گوہر نے اپنی کہی گئی بات سے ” یوٹرن” لیتے ہوئے اعتراف کیا کہ ان کی علی امین گنڈاپور کے ہمراہ آرمی چیف کے ساتھ ملاقات ہوئی تھی اور یہ کہ اس ملاقات میں دیگر بھی شامل تھے اور یہ خیبرپختونخوا کی سیکیورٹی صورتحال سے متعلق ملاقات تھی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنے سنجیدہ معاملات اور مسائل پر اعلیٰ عسکری قیادت کی جانب سے بلائے گئے اجلاس کو متنازعہ بنانے کی کوشش کرتے ہوئے اس پر پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کیوں کی گئی ؟
اس ضمن میں ردعمل کے طور پر سیکورٹی ذرائع نے موقف اختیار کیا کہ مذکورہ ملاقات خیبرپختونخوا کی سیکیورٹی صورتحال سے متعلق تھی اور شرکاء نے اسی سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا ۔ اس تاثر کو قطعاً مسترد کردیا گیا کہ کسی مذاکراتی عمل کے بارے میں اس نشست کے دوران مذکورہ پارٹی یا دیگر سے کوئی بات ہوئی ہے ۔ یہ بھی دوٹوک الفاظ میں واضح کیا گیا کہ اگر مذکورہ پارٹی نے کسی سے مذاکرات کرنے ہیں یا کررہی ہے تو ایسا وہ سیاسی جماعتوں اور سول حکومت کے ساتھ کرے گی ۔
کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار وزیر اعظم کے مشیر رانا ثنا اللہ نے بھی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات سے متعلق اگر پی ٹی نے عسکری قیادت کے ساتھ کسی بات چیت کی کوشش کی ہے یا تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے تو یہ برخلاف حقائق ہے اور غلط بیانی سے کام لیا گیا ہے۔
پی ٹی آئی نے ایسا کیوں کیا یہ بات کسی کو سمجھ میں نہیں آرہی تاہم یہ بات پھر سے ثابت ہوئی ہے کہ اس پارٹی پر حساس معاملات سے متعلق مشاورت پر بھی اعتماد نہیں کیا جاسکتا اور یہ کہ صوبے کی حکمران جماعت کو غالباً اب بھی بہت سی خوش فہمیاں لاحق ہیں ۔ یہ بات بھی پھر سے سامنے آئی ہے کہ صوبائی حکومت کو صوبے کی سیکورٹی صورتحال اور بیڈ گورننس کی نہ تو کوئی فکر ہے اور نا ہی مسائل کے حل میں صوبائی حکمران سنجیدہ ہیں ۔
اس سے قبل یہ خبر سامنے آئی کہ بانی پی ٹی آئی نے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کے اس بیان پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے جس میں انہوں نے مولانا فضل الرحمان پر ذاتی حملے کئے تھے ۔ مذکورہ خبر میں بتایا گیا تھا کہ بانی پی ٹی آئی نے یہ بھی ” کہا ” ہے کہ طالبان اور افغانستان وغیرہ پر جے یو آئی اور پی ٹی آئی کا موقف ایک جیسا ہے اس لیے مولانا یا جے یو آئی کو کسی تنقید کا نشانہ نہیں بنایا جائے ۔ اگر یہ خبر یا ہدایات درست ہیں تو اس پر بھی سنجیدہ نوعیت کے مختلف سوالات کھڑے کیے جاسکتے ہیں ۔ مثال کے طور پر یہ کہ کیا دونوں پارٹیوں کی ہمدردیاں پاکستان پر حملے کرنے اور کروانے والوں کے ساتھ ہیں یا یہ اپنی ریاست اور عوام کے ساتھ کھڑے ہیں ؟
تلخ حقائق تو یہ ہیں کہ پی ٹی آئی اور ریاست کے درمیان جب بھی قومی ایشوز پر کسی رابطہ کاری کا موقع مل جاتا ہے اور ریاست دریا دلی یا ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس پارٹی یا اس کی صوبائی حکومت کو اعتماد میں لینے کی کوشش کرتی ہے پی ٹی آئی پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کے لیے ہر ایسی کوشش کو متنازعہ یا ناکام بنادیتی ہے ۔ جہاں تک پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان جاری مذاکراتی عمل کے مستقبل کا تعلق ہے سنجیدہ ماہرین اس تمام پس منظر اور رویے کے باعث اس پریکٹس کو ایک لاحاصل عمل کا نام دے رہے ہیں اور جو شرائط پی ٹی آئی کی جانب سے سامنے آئی ہیں ان کو ماننے کا بظاہر کوئی امکان نظر نہیں آتا اس لیے بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ کشیدگی اس کے باوجود برقرار رہے گی کہ پی ٹی آئی کے پاس اب کوئی قابل ذکر کارڈ باقی نہیں رہا ہے اور اس پارٹی کو اندرونی توڑ پھوڑ کا بھی سامنا ہے۔
عقیل یوسفزئی