Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Thursday, August 7, 2025

بلوچستان ،  خیبرپختونخوا کی سیکیورٹی صورتحال اور ری الایمنٹ

عقیل یوسفزئی

بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں گزشتہ چند دنوں کے دوران دہشت گردی کے واقعات اور حملوں میں پھر سے اضافہ ہونے لگا ہے جبکہ فورسز کی کارروائیوں کا سلسلہ بھی کسی وقفے کے بغیر جاری ہے ۔ بلوچستان کے علاقے مستونگ میں ایک میجر سمیت 3 سیکیورٹی اہلکاروں کو شہید کیا گیا جبکہ خیبرپختونخوا کے ضلع کرک میں ریفائنری پر ڈیوٹی دینے والے 4 ایف سی اہلکار شہید کیے گئے ۔ مستونگ حملے کے دوران فورسز کی گاڑی کو بارودی مواد یا آئی ای ڈی سے نشانہ بنایا گیا جبکہ کرک کی کارروائی میں ایف سی پر فائرنگ کی گئی ۔ اسی روز جنوبی وزیرستان کے ڈپٹی کمشنر عصمت اللہ وزیر کی گاڑی کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ ٹانک سے لدھا جا رہے تھے ۔ وہ اس حملے میں معجزانہ طور پر بچ گئے تاہم متعدد سیکورٹی اہلکار زخمی ہوگئے ۔

6 اگست ہی کے روز کالعدم ٹی ٹی پی نے دعویٰ کیا کہ اس نے مہمند میں فرنٹیئر کور کے ایک قافلے کو نشانہ بنایا ہے تاہم آزاد ذرائع سے اس حملے کی تصدیق نہ ہوسکی ۔ اس سے ایک روز قبل مہمند کے تحصیل سالارزئی میں پولیس کی ایک عمارت کو تباہ کردیا گیا جو کچھ عرصہ قبل خالی کرائی گئی تھی اس لیے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ۔

ان چند ہے درپے واقعات سے ظاہر یہ ہوتا ہے کہ ریاستی کارروائیوں اور اقدامات کے باوجود دونوں حساس صوبوں میں کالعدم ٹی ٹی پی اور بلوچ لبریشن آرمی جیسی قوتیں پھر سے سرگرم عمل ہوگئی ہیں اور خطے میں جاری مجوزہ ری الایمنت کی علاقائی کوششوں کے تناظر میں ایسے دہشت گرد کارروائیوں کا راستہ روکنا ناگزیر ہوچکا ہے ۔ اگر چہ فورسز نے مستونگ ہی میں اسی دن 4 دہشت گرد ہلاک کئے اور خیبرپختونخوا میں بھی دو تین کارروائیاں کی گئیں تاہم مجموعی صورتحال کو اطمینان بخش قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ قبل ازیں 5 اگست کی شام کو پشاور کے علاقے دلہ زاک روڈ پر موٹر سائیکل سواروں نے ایک کار پر لوگوں کی موجودگی میں بدترین فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ایک پولیس آفیسر سمیت 3 افراد جاں بحق ہوئے جبکہ اس سے قبل تین چار روز تک بنوں میں پولیس ، پیرا ملٹری فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان مسلسل جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا جس میں متعدد افراد نشانہ بنے ۔ یہ سب کارروائیاں ایسے وقت میں کی گئیں جب خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور اور ان کی ٹیم نے  نہ صرف یہ کہ سی ایم ہاؤس میں مختلف علاقوں کے عوامی نمائندوں اور عمائدین کے ساتھ جرگوں کا ایک سلسلہ شروع کردیا ہے بلکہ خیبر اور باجوڑ میں بھی حکام اور کالعدم گروپوں کے درمیان مذاکراتی عمل جاری ہے اور کوشش کی جارہی ہے کہ عوام اور مختلف طبقوں کو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ریاست کی حمایت پر آمادہ کیا جائے ۔ دوسری جانب افغانستان کے ساتھ بھی رابطے جاری ہیں تاکہ کراس بارڈر ٹیررازم کا راستہ روکا جائے ۔ جاری جرگوں کے تناظر میں سی ایم ہاؤس سے جو بیانات جاری کئے جاتے ہیں ان میں ایک نکتہ بار بار دہرایا جاتا ہے کہ صوبائی حکومت کو افغانستان کے ساتھ ” مذاکرات” کی اجازت دی جائے تاہم صوبائی حکومت کے عہدے داران یہ بتانے کی زحمت نہیں کرتے کہ اس سے قبل عمران خان اور محمود خان کی حکومتوں کے دوران جب افغان عبوری حکومت کے ذریعے کالعدم ٹی ٹی پی سے متعدد بار کابل میں مذاکرات کیے گئے تو اس پراسیس کا نتیجہ کیا نکلا ؟

گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے اس مطالبے کے تناظر میں 6 اگست کو پشاور میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا کہ افغانستان یا کسی بھی ملک سے اس قسم کے مذاکرات صوبائی حکومت کے دایرہ اختیار میں نہیں آتا کیونکہ یہ فیڈرل گورنمنٹ کا سبجیکٹ اور ڈومین ہے ۔ انہوں نے مزید بتایا کہ صوبائی حکومت صوبے میں امن کے قیام میں سنجیدہ نہیں ہے جس کے باعث فورسز کو مشکلات کا سامنا ہے ۔ ماہرین کا خیال ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی سیکیورٹی صورتحال پر قابو پانے کیلئے اب ایک بالکل واضح اور ٹھوس پلان ترتیب دینا ہوگا کیونکہ خطے میں جاری ری الایمنت اور ری انگیجمنٹ کے پس منظر میں اب ان ممالک اور قوتوں کے لیے بھی  ان دو صوبوں کا امن ناگزیر ہوگیا ہے جو کہ یہاں بہت بڑے پیمانے پر انویسٹمنٹ کرنے آگئے ہیں یا آرہے ہیں ۔

بلوچستان ،  خیبرپختونخوا کی سیکیورٹی صورتحال اور ری الایمنٹ

Shopping Basket