Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Monday, June 2, 2025

پشاور پریس کلب میں فیسٹولا مرض سے متعلق سیمینار کا انعقاد

پاکستان نیشنل فورم آن ویمن ہیلتھ پاکستان کے زیر اہتمام فسٹولا(FISTULA)کو ختم کرنےاور خواتین کی صحت کے مستقبل کے والے سے جمعرات کے روز پشاور پریس کلب میں سیمنار کا انعقاد کیا گیا جس میں ڈپٹی ڈائریکٹرMCH/RH ڈاکٹر تنویر انعام, ڈپٹی ڈائریکٹر MCHڈاکٹر شاندانہ سریر, ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ یورولوجی (LRH) ڈاکٹر عضراء غنی، ڈاکٹر مطیع الرحمن، ڈاکٹر نازش حیات اور دیگر ڈاکٹرز, گائناکالوجسٹس نے شرکت کی اس موقع پر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے لیڈی ریڈنگ پشاور کی گائناکالوجسٹ ڈاکٹر نازش حیات نے ابتدائی کلمات میں کہا کہ فسٹیولا جو حمل اور زچکی کے دوران ماں کی صحیح دیکھ بھال اور علاج نہ ہونے کی وجہ سے عورتوں کے جسم میں پیدا ہو جاتی ہے سے خواتین کو کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے ایک طرف تو خواتین کو گھر میں علیحدہ کمرے میں رکھا جاتا ہے کیونکہ یہ بیماری عورتوں میں پیشاب بہنے کی بیماری ہے جس کا علاج پشاور میں اب مفت کیا جا سکتا ہے اور اس کے مراکز اب پورے پاکستان میں کھولے گئے ہیں جن میں مرضی ہاسپٹل پشاور نمایاں ہے انہوں نے کہا کہ فیسٹولہ کا علاج اگر وقت پر کیا جائے تو خواتین بہت سے مسائل سے چھٹکارا حاصل کر سکتی ہے انہوں نے کہا کہ یہ بیماری اضلاع میں زیادہ پائی جاتی ہے کیونکہ پہلے تو اس بیماری کے علاج کے لیے مریض کو جگہ جگہ پھر نہ پڑتا ہے اور جب یہ معلوم ہوتی ہے تو کافی وقت گزر چکا ہوتا ہے انہوں نے کہا کہ ضروری ہے کہ اس کا علاج وقت پر کیا جائے۔ اس سلسلے میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مرسی ٹیچنگ ہاسپٹل پشاور کی گائناکالوجسٹ ڈاکٹر سمدانہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خیبر پختون خواہ میں فیسٹیول کی بیماری کے علاج کے لیے ہماری خدمات مفت دستیاب ہیں اور اس کی اگاہی کے لیے عوام میں اب باقاعدہ مہم چلائی جا رہی ہے کیونکہ اور عورتوں میں پیشاب بہنے کی بیماری کی وجہ سے ایک طرف ان کو سوشل بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ گھر میں بھی ان کو ایک سائیڈ پر رکھا جاتا ہے اور یہ نہیں سوچا جاتا کہ اس مریض کا علاج کیا جائے اور جب علاج کیا جاتا ہے تو اس کے لیے کافی وقت گزر چکا ہوتا ہے انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں پاکستان نیشنل فورم ان مومنٹس ہیلتھ کے سلسلے میں کافی خواتین کو ٹریننگ بھی دی جا رہی ہے اور کہیں ٹرین ہو چکی ہیں انہوں نے کہا کہ اس بیماری کی وجہ سے ایک طرف خواتین کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو دوسری طرف ان کو اس علاج کے مراکز کی معلومات نہیں ہوتی تو ضروری ہے کہ وہ اپنے قریبی بڑے ہاسپٹل میں جا کر گائناکالوجسٹ سے رابطہ کریں اور اس کا علاج کریں تاکہ وہ مستقبل میں مسائل کا شکار نہ ہو اس سلسلے میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر مطیع الرحمان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اس بیماری کے سلسلے میں خواتین سے اپنا لاتا توڑ دیتے ہیں اور انہیں طلاق دینے کی سوچتے ہیں اور دوسری شادی کا پلان بناتے ہیں لیکن یہ اس کا حل نہیں فیس ٹولہ کا علاج موجود ہے اور ضروری ہے کہ مریض کو یہ بیماری نہیں چھپانی چاہیے اور اور شوہر حضرات کو چاہیے کہ وہ باقاعدہ ڈاکٹروں کے پاس جا کر اپنی خواتین کا علاج کرائیں تاکہ وہ معاشرے میں بہترین کردار ادا کر سکیں انہوں نے کہا خواتین کو چاہیے کہ وہ اپنے چھوٹے مسئلے کو چھوٹا مسئلہ نہ سمجھیں اور ڈاکٹروں سے نہ چھپائیں اور ڈاکٹروں سے کھل کر اس پر گفتگو کریں جس کے لیے باقاعدہ ڈاکٹر موجود ہیں اور وہ ان کی خدمت کر کے ان کو اس خطرناک بیماری سے چھٹکارا دلا سکتے ہیں۔ سیمینار سے ایل ار پشاور کی یورالوجسٹ ڈاکٹر عزرا غنی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فیسٹولا کہ مرض میں مبتلا سینکڑوں عورتوں اپریشن کے بعد صحت یاب ہو کر معمول کی زندگی گزار رہی ہیں ۔ عوام سے اپیل کی کہ وہ فیسٹولہ کے مریضوں کو نظر انداز نہ کریں اور ان کا وقت پر علاج کرائے کیونکہ دیکھنے میں ایا ہے کہ اس مرض کی وجہ سے کئی خواتین کافی مشکلات کا شکار ہے لیکن اس کا علاج موجود ہے اور ہماری ڈاکٹروں کی ٹیم باقاعدگی سے ان مریضوں کا بہترین طریقے سے اور مفت علاج کر رہے ہیں اور اس کے لیے باقاعدہ ہسپتالوں میں جگہ موجود ہے انہوں نے کہا کہ خواتین کو چاہیے کہ زجگی کے دوران اپنا علاج تربیت یافتہ مڈ وائف یا کسی تجربہ کار طبی ماہرین کی نگرانی میں کرائیں۔ انہوں نے فسٹولا بیماری پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جن لڑکیوں کی شادی کم عمری میں کر دی جاتی ہے تو ان کی جسم کی ہڈیاں کمزور ہوتی ہیں اور جسم اور ہڈیوں کی مکمل نش نما سے پہلے اگر ان کے ہاں بچے پیدا ہوں تو انہیں فرسٹیولا کی بیماری لاحق ہو سکتی ہے بڑی عمر کی وہ عورتیں جن کے ہاں زیادہ بچے ہوئے ہوں ان کے اضلات اتنے مضبوط نہ ہونے کی وجہ سے زچگی کے وقت بچے کو باہر دھکیل سکیں وہ بھی اس تکلیف میں مبتلا ہو سکتی ہیں دونوں صورتوں میں عورت کے لیے بچے کو باہر دھکیلنا مشکل ہوتا ہے جس کی وجہ سے مثانے اور وجائنہ کے درمیان ازداد کی دیوار پر مسلسل رگڑ کھاتا ہے اور دباؤ ڈالتا رہتا ہے جس سے دیوار میں سراخ یعنی فرسٹ ٹیولا ہو جاتا ہے اس صورت میں اکثر مرا ہوا بچہ پیدا ہوتا ہے ایسی عورت کو فوری طبی مدد نہ ملے تو عورت یا لڑکی روز مرہ زندگی میں بے انتہا مشکلات کا سامنا کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ضروری ہے کہ خواتین اس طرف توجہ دیں اور یہ غریب لوگوں کی بیماری ہے اور اس کا شکار زیادہ تر غریب عورتیں ہوتی ہیں انہوں نے کہا کہ فسٹیولا کی 95 پرسنٹ مریضوں کا علاج کیا جا سکتا ہے اور پاکستان نیشنل فورم ان وومن ہیلتھ کا اپریشن فیسٹولا پراجیکٹ ہے۔ سیمینار کے اختتام پر ڈاکٹر حفیظ الرحمن نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فیسٹولا کی بیماری کا علاج ممکن ہے اگر وقت پر ڈاکٹروں سے رابطہ کیا جائے اور مریض کو ڈاکٹر تک پہنچایا جائے کیونکہ اب اس کا علاج مفت ہے اور دور دراز کے علاقوں یہ مرض عام ہے اور ان کو چاہیے کہ وہ وقت پر شہری ہسپتالوں میں جا کر اپنے مریضوں کا علاج کرائیں اور ان سے ناطہ نہ توڑیں کیونکہ خواتین صحت مند ہوں گی تو وہ اپنے گھر کا بھی خیال رکھیں گی اور اپنے بچوں کا اور اپنے شوہر کا تو ضروری ہے کہ فسٹیولا کہ مریض کو ہم علیحدہ کمرے میں نہ رکھیں اور اس کا علاج کر کے انہیں باعزت زندگی کی طرف لے کر ائیں۔

پشاور پریس کلب میں فیسٹولا مرض سے متعلق سیمینار کا انعقاد

Shopping Basket