عقیل یوسفزئی
وزارت عظمیٰ کے لئے مسلم لیگ ن کے نامزد امیدوار میاں شہباز شریف قومی اسمبلی سے 201 ووٹ لیکر دوسری بار وزیر اعظم منتخب ہوگئے ہیں ۔ ان کے مدمقابل امیدوار تحریک انصاف کے عمر ایوب خان نے اس اہم دوڑ میں 102 ووٹ حاصل کئے ۔ میاں شہباز شریف کو ان کی اپنی پارٹی کے علاوہ دو اہم اتحادی جماعتوں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے بھی سپورٹ کیا جبکہ جے یو آئی ف اور بی این پی نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا ۔ منتخب ہونے کے بعد نو منتخب وزیراعظم نے تقریباً 2 گھٹنے کی اپنی طویل تقریر کے دوران پاکستان کو درپیش اقتصادی چیلنجز پر تفصیلی بحث کی اور موقف اختیار کیا کہ ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر ملک کو سیاسی اور معاشی چیلنجز سے نکالنے کے لیے سب مل کر آگے بڑھیں ۔ مگر اس کے جواب میں ہارنے والے امیدوار اور پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی سیکرٹری جنرل عمر ایوب خان نے کوئی مثبت جواب دینے کی بجائے تصادم پر مشتمل بیانیہ پیش کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ہم آپ کو دن میں تارے دکھادیں گے ۔ موصوف نے اس کے باوجود انتخابات کو مسترد کردیا کہ وہ اپنی جیت کا کریڈٹ بھی لیتے آرہے ہیں اور خیبرپختونخوا میں ان کی حکومت نے کام بھی شروع کردیا ہے ۔ موصوف نے پاکستان کے استحکام اور ترقی کے لیے عمران خان کو ناگزیر قرار دے کر حسب معمول بہت مبالغہ آمیز تقریر کی تاہم وہ یہ بتانے میں ناکام رہے کہ جب ملک پر ان کی حکمرانی تھی اور ان کی حکومت کو اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی حاصل تھی تب انہوں نے پاکستان کے لئے کیا کچھ ڈیلیور کیا ۔ وہ یہ فریاد کرتے نظر آئے کہ 9 مئی کے بعد ان کی پارٹی پر ” ظلم ” کے پہاڑ توڑے گئے تاہم انہوں نے اسمبلی فلور پر ان واقعات کی کھل کر مذمت بھی نہیں کی ۔ ایسا ہی رویہ پارٹی کی ایک خاتون رہنما شاندانہ گلزار کا بھی مسلسل دیکھنے اور سننے کو ملتا آرہا ہے اور لگ یہ رہا ہے کہ ہمارے متعلقہ اداروں نے خوف پر مبنی جو پالیسی 9 مئی کے واقعات کے بعد اختیار کی تھی سب کو اس کے نتائج اب ایک نئی شکل میں بھگتنے پڑیں گے ۔ بہت سوں کو تو مزہ اس وقت آئیگا جب خیبرپختونخوا کی حکومت پہلے سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ عمران خان کی ہدایات کے مطابق مرکزی حکومت اور اداروں پر سرکاری وسائل کے ساتھ حملہ آور ہوگی ۔ پشاور میں اس وقت ان تمام افسران کی پروفایلنگ جاری ہے جنہوں نے 9 مئی کے واقعات کے بعد ریاستی احکامات کے مطابق کارروائی کی جبکہ اپنے ہم خیال افسران کو دوبارہ لانے کی تیاریاں شروع کی گئی ہیں ۔ یہ صورت حال آگے جاکر کیا رخ اختیار کرتی ہے اس کا اندازہ لگانے کے لیے کسی لمبی سوچ بچار یا مغز ماری کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔