جلسے نہیں کارکردگی دکھاؤ

جلسے نہیں کارکردگی دکھاؤ

برصغیر پاک و ہند میں عوامی جلسوں کا رواج خاصا پرانا ہے۔ قیام پاکستان سے قبل متحدہ ہندوستان میں انگریزوں سے آزادی کی جنگ انہی جلسوں کے ذریعے لڑی گئی۔ آزادی کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری و ساری ہے بلکہ اب اس میں شدت آ چکی ہے۔ حالیہ عرصے میں تحریک انصاف نے سیاسی جلسوں کو ایک نئی شکل دے دی ہے جو مثبت کی بجائے منفی ہے۔ جلسے کرنا اور ان کے ذریعے عوام تک اپنا پیغام پہنچانا کوئی معیوب بات نہیں مگر بشرطیکہ ان سیاسی سرگرمیوں سے عوام کے معمولات زندگی متاثر نہ ہوں اور کاروبار مملکت میں خلل نہ پڑے۔

کسی جماعت نے جلسہ کرنا ہے تو مہذب ممالک اور اقوام کی طرح اس کے لیے شرکاء پر امن اور مہذب طریقے سے آئیں اور مقررہ مقام پر اپنا پروگرام منعقد کریں، مگر یہاں اس کے برعکس ہوتا ہے۔ سیاسی جلسوں کے لیے دور دراز سے شرکاء کی آمد جلوسوں کی صورت میں ہوتی ہے اور وہ ان جلوسوں کے لیے سڑکوں اور شاہراہوں کو بند کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ چھوٹی بڑی شاہراہوں اور گنجان آباد شہری علاقوں میں ٹریفک جام کے شدید مسائل جنم لیتے ہیں، عوام کے معمولات زندگی بری طرح متاثر ہوتے ہیں اور انہیں ان جلسوں کے سبب شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

خصوصاً تحریک انصاف اپنے جلسوں سے کئی بڑے شہروں اور علاقوں کی زندگی متاثر کر دیتی ہے۔ بلکہ اس کے جلسے 9 مئی سے تشدد کی راہ پر چل نکلے ہیں۔ اب یہ جلسے کم اور پرتشدد مظاہرے زیادہ لگتے ہیں، اس لیے حکومت پی ٹی آئی کو جلسے کی اجازت دینے میں تذبذب کا شکار ہو جاتی ہے کیونکہ پی ٹی آئی قیادت پر امن اجتماع کا وعدہ کر کے اسے متشدد مظاہرے میں بدل دیتی ہے۔

ماضی قریب کے متعدد واقعات شاہد ہیں کہ اس جماعت نے قومی املاک پر حملے کیے، توڑ پھوڑ کی، سرکاری اہلکاروں کو مارا پیٹا، زدوکوب کیا، ڈنڈے مار کر سر پھاڑے گئے اور ریڑھ کی ہڈیاں تک توڑ دی گئیں۔ قومی ٹی وی پر حملہ کیا گیا، عمارت پر قبضہ کیا گیا اور نشریات گھنٹوں بند رکھی گئیں، مظاہرین پارلیمنٹ میں گھس گئے، وہاں خیمے لگا دیے، سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کے راستے مہینوں بند رکھے گئے، 9 مئی کو فوجی تنصیبات پر حملے کیے گئے، جلاؤ گھیراؤ کیا گیا اور نجی و قومی املاک کو قابل ذکر نقصان سے دوچار کیا گیا۔ اس لیے حکومت تحریک انصاف کو جلسے کی اجازت دینے سے کتراتی ہے۔

پی ٹی آئی نے اسلام آباد میں جلسے کی اجازت طلب کی جس پر اس کی سابقہ طرز عمل کو مدنظر رکھتے ہوئے ضلعی انتظامیہ نے اجازت دینے سے گریز کیا۔ جو بالکل درست اقدام تھا کیونکہ تحریک انصاف کے قائدین جس طریقے سے جلسے کو پرتشدد ظاہر کرنے کی کوشش کرتے رہے اس طرز عمل پر کوئی بھی ریاست جلسے کی اجازت نہیں دے گی۔

تحریک انصاف کے پاس چونکہ خیبرپختونخوا کی حکومت ہے اس لیے وزیراعلیٰ نے اس جلسے کے لیے سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال کیا، وفاق پر چڑھائی اور قبضے کے بیانات دیے، کسی کا باپ بھی نہیں روک سکتا، جلسہ نہ کر سکے تو سیاست چھوڑ دیں گے، چھوڑیاں پہن لیں گے جیسے عامیانہ زبان کا استعمال کیا گیا اور باور کروانے کی کوشش کی گئی کہ یہ کوئی پرامن جلسہ نہیں ہوگا بلکہ اس کے شرکاء اڈیالہ جیل جائیں گے، وہاں سے بانی پی ٹی آئی کو رہا کروائیں گے اور اس کی قیادت میں پہلے جی ایچ کیو پر حملہ آور ہوں گے، وہاں اپنی مرضی کے آرمی چیف لگوا کر اسلام آباد کا رخ کریں گے اور انقلاب برپا کرکے حکومت پر قبضہ کریں گے۔

ان تصورات اور خیالات کے پیش نظر حکومت جلسے کی اجازت کیوں کر دے سکتی تھی؟ جلسے کے لیے مرو اور مر جاؤ کا ماحول بنانے کی کوشش اس کے انعقاد کی راہ میں رکاوٹ بنی۔ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت قومی خزانے کو شیر مادر سمجھ کر لوٹ اور لٹا رہی ہے، اسے جلسوں کے لیے استعمال کر رہی ہے، جلوسوں کے ہمراہ کرینیں اور بلڈوزر جو کہ قومی ملکیت ہیں، استعمال ہوتے ہیں، صوبائی حکومت عوام کو ریلیف دینے سے اس لیے انکاری ہے کہ اس کے پاس فنڈز کی کمی ہے، یونیورسٹیوں کی زمینیں نیلام کرنے کے منصوبے بنائے جاتے ہیں کیونکہ حکومت کے پاس وسائل کی کمی ہے مگر پانچ پانچ ہزار کے نوٹ جلسہ شرکا میں بانٹنے کی ویڈیوز جاری کی جاتی ہیں جو عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔

حکومتوں کا کام بڑھکیں اور ڈینگیں مارنا نہیں ہوتا بلکہ عوام کو سانس لینے میں سہولت فراہم کرنا ہوتا ہے۔ یہاں حکومت نے لوگوں کو جلسوں پر لگا دیا ہے اور آئے روز ‘جلسہ ہے’ کی گردان سے عوام کو بہلایا جا رہا ہے۔ صوبائی حکومت کے یہ لچھن کسی طور ملک و قوم کے مفاد میں نہیں۔ اس طرز عمل کے پیش نظر صوبے کے سنجیدہ و فہمیدہ حلقے وفاقی حکومت سے اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنے کی استدعا کر رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ کے یہ حرکات و سکنات گورنر راج کو دعوت دینے کے مترادف ہیں۔

یہاں امن و امان کی صورتحال ناگفتہ بہ ہے، آئے روز پولیس اور سیکیورٹی فورسز کے اہلکار دہشت گردوں کا نشانہ بن رہے ہیں، جھڑپوں میں جوان اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں، حکومتی رٹ نہ ہونے کے برابر ہے، حکومت کے اندر سے کرپشن کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں، صوبہ افراتفری کا شکار ہے، چیف سیکرٹری اور آئی جی کو سرکاری اہلکاروں کے لیے ہدایات جاری کرنا پڑتی ہیں کہ وہ سیاسی سرگرمیوں سے دور رہیں حالانکہ یہ ہدایات وزیراعلیٰ کو جاری کرنا ہوتی ہیں۔

اس افراتفری سے تحریک انصاف کی عوامی مقبولیت زوال پذیر ہو چکی ہے۔ گنڈا پور حکومت پانچ ماہ میں عوام کو ریلیف دینے کے لیے کوئی منصوبہ سامنے نہ لا سکی۔ سابقہ عمران خان حکومت کی طرز پر میڈیا کے ذریعے حکومت چلائی جا رہی ہے۔ یہ طرز عمل کسی صورت حکمرانوں کو زیب نہیں دیتا۔ وزیراعلیٰ اور حکومت کو پے درپے دو معاملات میں سبکی کا سامنا ہے، ایک تو ہفتے بھر سے حکومتی کرپشن کی کہانیاں زبان زد عام ہیں، کرپشن کی داستانیں سنانے والے وزیر کو ہی برطرفی کا پروانہ تھما دیا گیا ہے، اوپر سے وہ جلسہ منسوخ ہوا جس کے لیے وزیراعلیٰ سمیت دیگر رہنما بڑی بڑی ڈینگیں اور فلمی ڈائیلاگ مارتے رہے۔

تحریک انصاف قائدین خصوصاً وزیراعلیٰ کو ذمہ دارانہ طرز عمل اپنانے کی ضرورت ہے۔ انہیں تصوراتی دنیا کو خیر باد کہنا ہوگا، یہاں بنگلہ دیش والے خواب پورے ہونا ممکن نہیں۔ عوام اب جلسوں اور محاذ آرائی کی سیاست سے اکتاہٹ کا اظہار کر رہی ہے، انہیں مزید بہلانے کی بجائے کارکردگی دکھانی ہوگی۔

— وصال محمد خان

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket