پارلیمنٹ اورعدلیہ (دوسری وآخری قسط)
اب پورے ملک میں یہ فیصلہ دینے والے ججوں کوپی ٹی آئی کی جانب سے ہدیہء تبریک پیش کرنے جبکہ فیصلے کی مخالفت کرنے والوں کی جانب سے تبرابھیجنے کاسلسلہ جاری ہے جس سے عدلیہ کے وقار کوٹھیس پہنچی ہے اورجس ادارے سے عوام کوامیدیں وابستہ تھیں وہ کچھ حلقوں کی نظرمیں متنازعہ ہو چکاہے بلکہ اب رائے عامہ کوپختہ یقین ہو چلا ہے کہ عدلیہ کے فیصلے پسندناپسندپرمبنی ہوتے ہیں ۔
سنی اتحادکونسل عدالت عالیہ کے پاس مخصوص نشستوں کے حوالے سے درخواست لیکرگئی تھی جسے مستردکردیاگیامگراستردادکے بعداسکے ساتھ یہ ظلم بھی روارکھا گیا کہ اسے مخصوص نشستیں کیاملتیں اپنی موجودہ جنرل نشستوں سے بھی ہاتھ دھونے پڑگئے اب عقل سلیم کاتقاضاہے کہ سنی اتحادکونسل سپریم کورٹ سے فریاد کناں ہو کہ جناب عالی! ہم آپکے پاس مخصوص نشستوں کیلئے فریادلیکرحاضرہوئے تھے مگر آپ نے ہمارے ارکان کودوسری جماعت میں شامل ہونے کے احکامات جاری فرمادئے جس بنیادپرسنی اتحادکونسل کی درخواست مسترد کر دیگئی وہی حقائق تحریک انصاف پر بھی لاگوہوتے ہیں کیونکہ اس نے بھی مخصوص نشستوں کیلئے فہرستیں جمع نہیں کروائیں۔
اس ایک کیس میں عدلیہ نے جوفیصلہ دیاہے اسکی نظیرپاکستانی توکیاکسی دیگرملک کی عدالتی تاریخ میں بھی نہیں ملتی اگرجج حضرات چھٹیوں پرنہ جاتے اورحکومتی نظرثانی کی اپیل پرسماعت ہوتی توپارلیمنٹ کواس حوالے سے مزیدقانون سازی کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔
اب جن شقوں پرابہام تھایا فیصلے سے ابہام پیداہوگیااسے دورکرنے کیلئے پارلیمنٹ نے مزیدقانون سازی کی جسے ابھی سے تحریک انصاف نے چیلنج کردیاہے حالانکہ اس قانون پرابھی صدرکے دستخظ بھی نہیں ہوئے تھے اورجب تک صدردستخط نہیں کرتے تب تک کوئی قانون نہیں بن سکتاتوعدالت میں چیلنج کیسے ہو۔
اب اسکے خلاف تحریک انصااف عدالت سے رجوع کرچکی ہے اور اسکے قائدین سمیت وکلا کایقینی دعویٰ ہے کہ عدالت اس قانون کوکالعدم قراردے دے گی۔
اگریہ قانون کالعدم قرارپاتاہے تویہ عدلیہ اورپارلیمنٹ کے درمیان محاذآرائی کے نئے در واکردے گی کیونکہ قانون سازی پارلیمنٹ کاکام ہے اورعدلیہ کاکام اسکی تشریح ہے۔ خود سے کوئی قانون بنانانہیں۔
بدقسمتی سے مخصوص نشستوں کے کیس میں عدلیہ نے خودسے قانون سازی کردی ہے جس پرفیصلے کی مخالفت کرنے والے دوججوں نے اختلافی نوٹ میں واضح نشاندہی کی ہے کہ اس فیصلے سے آئین کے 5آرٹیکلزیاتومعطل کرنے ہونگے یاانکے دائرہء کارسے باہرجاناہوگا۔
پارلیمنٹ کاکا م چونکہ قانون سازی ہے اگرپارلیمنٹ قانون منظورکرے کہ قتل کے مجرم کوسزائے موت کی بجائے عمرقیددی جائیگی توعدالت خود سے کسی کوپھانسی کی سزانہیں دے سکتی ۔ اس قسم کی سزا آئین سے ماوراقرارپائیگی۔
ہماراالمیہ ہے کہ ادارے اپنے اپنے دائرہء کارسے نکل کردوسرے اداروں کے کام میں مداخلت کے مرتکب ہوتے ہیں اوریہ ذاتی پسندناپسندکی بنیادپر ہوتاہے ہمارے ہاں جمہوریت تب مضبوط ومستحکم ہوگی جب ہرادارہ اپنے اپنے دائرے میں رہ کرکام کرے اوردوسروں کے کام میں مداخلت سے بازرہے۔
کسی دوسرے ادارے کاکام اپنے ذمے لینے سے ان گنت قباحتیں جنم لیتی ہیں جس سے نظام حکومت ڈیلیورکرنے میں ناکامی سے دوچارہوتاہے اورہم اس کاالزام سسٹم کودیکراسے ملیامیٹ کرنے کے درپے ہو جاتے ہیں ۔
ستتربرس گزرجانے کے بعد آج بھی ہمارے ہاں کبھی صدارتی نظام کے شوشے چھوڑے جاتے ہیں اورکبھی خلافت کاراگ الاپا جاتاہے۔
جو سسٹم ہمارے ہاں رائج ہے اسی سسٹم سے دنیاکے بہت سے ممالک اچھے نتائج لے رہے ہیں وہاں کے لوگ خوشحال زندگی بسر کر رہے ہیں اوراسی سسٹم کے گن گاتے نظرآتے ہیں مگرہم ہیں کہ سسٹم کوبے نقط سناتے دکھائی دے رہے ہیں سسٹم جوبھی ہواسے چلانے والوں میں خلوص کافقدان نہیں ہوناچاہئے دنیاکے بہت سے ممالک میں عشروں سے بادشاہت قائم ہے مگراسے چلانے والے چونکہ ملک وقوم سے مخلص ہیں اسلئے وہاں کے شہری مزے میں ہیں جبکہ ہم جمہوریت کابہترین پارلیمانی نظام اپنانے کے باوجوداس سے عوامی مفاد کاکوئی کام نہ لے سکے۔
عقل ،دانش وتدبرکاتقاضاہے کہ ملک کے تمام ادارے اورافراداپنی ضداوراناکوخیبربادکہہ دیں ملک وقوم کیساتھ خلوص کامظاہرہ کریں ہرادارے کواپناکام کرنے دیاجائے کوئی ادارہ اپنی حدودسے باہرنہ نکلے کسی دوسرے کے کام میں مداخلت نہ کرے پارلیمنٹ کاکام قانون سازی ہے اورعدلیہ کاکام اس قانون کی تشریح ہے دونوں اپنااپناکام خلوص سے انجام دیں توکوئی وجہ نہیں کہ عدلیہ اورپارلیمنٹ ایکدوسرے کے سامنے آئیں یامحاذآرائی کی صورتحال پیداہو۔
تمام ادارے خودکواورااپنی ذمہ داریوں کوپہچانیں تویہی نظام ڈیلیوربھی کرے گااورعوام کے مسائل میں بھی کمی آئے گی۔ (ختم شد)
— وصال محمد خان