گنڈاپورحکومت اِن ٹربل

گنڈاپورحکومت اِن ٹربل

خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی مسلسل تیسری حکومت بھی گزشتہ حکومتوں کی طرح تنازعات کا شکار ہے۔ اس سے قبل جو دو حکومتیں گزری ہیں ان میں بھی ہفتے کے سات، مہینے کے تیس، اور سال کے 365 دن کوئی نہ کوئی ایشو چلتا رہتا تھا۔ وزراء آئے روز ناراض ہوتے، اپنے خدشات و تحفظات کا اظہار کرتے، مستعفی ہوتے یا پھر انہیں برطرف کر دیا جاتا تھا۔

اس پارٹی کو پختونخوا میں حکومت کرتے ہوئے گیارہواں سال چل رہا ہے۔ بیشتر وزراء تیسری بار وزارتوں پر براجمان ہیں مگر ان میں سنجیدگی اور متانت کا فقدان ہے۔ یہ بچگانہ اور لابالی پن سے معاملات چلاتے، دیکھتے اور ڈیل کرتے ہیں۔ نااہلی، بدانتظامی، کرپشن، بدعنوانی اور اقربا پروری کا تسلسل موجودہ حکومت میں بھی دوام پذیر ہے۔

گزشتہ انتخابات کے نتیجے میں جب موجودہ حکومت کی سربراہی کے لیے علی امین گنڈاپور کا نام سامنے آیا تو صوبے کے سنجیدہ و فہمیدہ حلقوں نے خدشات کا اظہار کیا کہ علی امین گنڈاپور کی مجموعی شخصیت خیبرپختونخوا جیسے صوبے کی سربراہی کے لیے غیر موزوں ہے۔ خیبرپختونخوا محل وقوع اور قدرتی وسائل کے اعتبار سے، بین الاقوامی دلچسپیوں کے حوالے سے اور افغانستان کے بارڈر پر ہونے کے سبب ایک حساس صوبہ شمار کیا جاتا ہے۔

اس صوبے کی سربراہی کے لیے کسی معاملہ فہم، سیاسی سمجھ بوجھ سے بہرہ ور، صلح جو، اور ذہین و فطین شخص کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی تھی۔ عمران خان کو چونکہ عقل کل سمجھا جاتا ہے مگر انہوں نے گزشتہ دو مرتبہ جن دو افراد کو وزیراعلیٰ کی کرسی پر بٹھایا وہ دونوں آج انکی بدترین طرز حکمرانی کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں۔ عین ممکن ہے مستقبل میں اسی قسم کی گفتگو علی امین گنڈاپور سے بھی سننے کو ملے۔

شکیل خان گنڈاپور کابینہ میں سی اینڈ ڈبلیو یعنی کمیونیکیشن اور ورکس کے وزیر تھے۔ گزشتہ ماہ انہوں نے جیل میں بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی جس کے بعد انہوں نے کہا کہ میں نے مختلف وزارتوں میں ہونے والی کرپشن سے بانی کو آگاہ کیا۔ ان کی ہدایت پر میں پریس کانفرنس کے ذریعے کرپشن کی نشاندہی کروں گا۔

انہوں نے مختلف وزارتوں خصوصاً اپنی وزارت میں ہونے والی کرپشن اور بدعنوانی پر پریس کانفرنس کرنے کا اعلان کیا۔ ان کی گفتگو سے یہی تاثر لیا گیا کہ وہ وزیراعلیٰ پر کرپشن کا الزام لگا رہے ہیں۔ وہ پریس کانفرنس میں جو کچھ کہنا چاہتے تھے انہیں کہنے نہیں دیا گیا، محض خانہ پری کے لیے ایک پریس کانفرنس کروائی گئی جس میں ان کے ساتھ مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف کو بطور نگران بٹھا دیا گیا۔

صوبائی حکومت میں کرپشن کا شور اٹھنے پر عمران خان نے بزرگ قانون دان قاضی انور، سابق گورنر شاہ فرمان اور مشیر وزیراعلیٰ مصدق عباسی پر مشتمل گڈ گورننس نامی سہ رکنی کمیٹی قائم کی جسے بدعنوانی کی شکایات پر سفارشات تیار کرنے کا ٹاسک سونپا گیا۔

حیرت انگیز طور پر کمیٹی نے سب سے پہلے اسی وزیر کو بلایا جو کرپشن کے خلاف شور مچا رہا تھا اور مزید باعث تعجب یہ کہ اس وزیر کو برطرف کرنے کی سفارش بھی کی گئی۔ اور سفارش بھی ایسی زوداثر کہ ادھر سفارش ہوئی ادھر وزیر برطرف ہوا۔

کرپشن پر شکیل خان کی برطرفی پی ٹی آئی کے اندرونی حلقوں سے بھی ہضم نہیں ہو رہی۔ سینئر رہنما اور ممبر قومی اسمبلی جنید اکبر کے مطابق، ‘‘وہ خدا کو حاضر و ناظر جان کر حلف دینے کو تیار ہیں کہ شکیل خان انتہائی ایماندار آدمی ہے۔ دس سال تک وزیر رہنے کے باوجود ان کے پاس ذاتی گاڑی تک نہیں، وہ اکثر اپنے سیکیورٹی گارڈ اور پی ایس کے مقروض رہتے ہیں۔’’

انہوں نے مزید کہا، ‘‘انہیں ہٹانے کے طریقہ کار کی مخالفت کرتا ہوں۔ اگر وہ کرپٹ ہوتے تو خان کو شکایت نہ کرتے۔ اگر میں غلط بیانی سے کام لوں تو مجھ پر اور میرے بچوں پر اللہ کا عذاب نازل ہو۔’’ جنید اکبر کا نام پہلے سہ رکنی کمیٹی میں شامل تھا مگر بعد میں ان کی جگہ وزیراعلیٰ کے مشیر مصدق عباسی کو شامل کیا گیا۔

حالیہ مؤقف اپنانے پر انہیں ممبران قومی اسمبلی کے لیے فوکل پرسن برائے وزیراعلیٰ کے عہدے سے بھی ہٹا دیا گیا ہے اور ان کی جگہ کرک سے رکن قومی اسمبلی شاہد خٹک کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے۔

سیاسی اور صحافتی حلقوں کے مطابق گڈ گورننس کمیٹی کے نام پر ایک ڈھونگ رچایا گیا۔ اس کمیٹی کی پہلی سفارش ہی متنازعہ حیثیت اختیار کر گئی۔ اگر اس نے دو چار اس قسم کی مزید سفارشات پیش کیں تو دیگر کا علم نہیں مگر قاضی انور جیسے بزرگ قانون دان تنازعات کا شکار ہو جائیں گے اور انہیں عزت سادات بچانے کے لیے ضعیف العمری میں دوگنی محنت کرنی پڑ سکتی ہے۔

عام تاثر یہ ہے کہ وزیراعلیٰ شکیل خان سے ناخوش تھے اور یہ ناخوشی کمیشن وغیرہ کے سبب تھی۔ اس سلسلے میں سات ارب روپے کا ایک مبینہ سکینڈل بھی سوشل میڈیا کا ٹاپ ٹرینڈ بن چکا ہے۔

گزشتہ شب پی ٹی آئی کے پارلیمنٹرین واٹس ایپ گروپ میں وزیراعلیٰ اور شکیل خان کے درمیان شدید تلخ کلامی ہوئی۔ ذمہ دار ذرائع کے مطابق دونوں کے درمیان جھڑپ ایک گھنٹے تک جاری رہی جس میں دونوں نے ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگائے اور شکیل خان نے وزیراعلیٰ کو بے اختیار ہونے کا طعنہ بھی دیا۔

جھڑپ کے دوران ہی شکیل خان نے وزارت سے استعفیٰ دیا جس پر وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ وہ پہلے ہی انہیں فارغ کر چکے ہیں۔ شکیل خان کا کہنا ہے کہ وہ ‘‘اسمبلی فلور پر تفصیل سے بات کریں گے۔ عوام نے پی ٹی آئی کو جس مقصد کے لیے ووٹ دیا ہے حکومت اس سے ہٹ چکی ہے جس کے سبب عوام پارٹی سے متنفر ہو رہی ہے۔ میں کسی بھی فورم پر خود کو احتساب کے لیے پیش کرتا ہوں۔’’

گورنر کو ان کی برطرفی کی سمری موصول ہونے پر انہوں نے اس کی منظوری دے دی، مگر ان کا کہنا تھا کہ شکیل خان کو حکومتی کرپشن بے نقاب کرنے پر وزارت سے ہٹا دیا گیا۔ جس نے بھی حکومت کی کرپشن کو بے نقاب کیا، اس کے خلاف کارروائی ہوئی حالانکہ وزیراعلیٰ کو خود مستعفی ہو جانا چاہئے تھا کیونکہ ان کے خلاف کرپشن کی چارج شیٹ پیش کی گئی ہے۔

سابق سینئر وزیر اور ممبر قومی اسمبلی عاطف خان کا کہنا ہے کہ شکیل خان کے خلاف سازش کی گئی۔ اس سازش کے دو کرداروں کو وقت آنے پر بے نقاب کروں گا۔ دو مزید وزراء کے مستعفی ہونے اور اس کے بعد پانچ مزید استعفوں کی افواہیں بھی گرم ہیں۔

اس ہلچل سے ظاہر ہو رہا ہے کہ پی ٹی آئی کی تیسری حکومت ابتدائی پانچ ماہ میں ہی اختلافات کا شکار ہو چکی ہے۔ اور یہ اختلافات عوامی مسائل و مشکلات کے لیے نہیں بلکہ ایک دوسرے کی کرپشن، بدعنوانی اور نااہلی بے نقاب کرنے کا شاخسانہ ہیں۔

اندرونی اختلافات، کرپشن، بیڈ گورننس اور نا اہلی کے سبب گنڈاپور حکومت اِن ٹربل ہے۔ اگر مزید استعفے آتے ہیں یا برطرفیاں ہوتی ہیں تو انہیں اپنی پوزیشن برقرار رکھنا مشکل تر ہو جائے گا۔

— وصال محمد خان

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket