Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Tuesday, September 10, 2024

عدلیہ اورپارلیمنٹ

عدلیہ اورپارلیمنٹ

وطن عزیز میں بلاشبہ جمہوریت رائج ہے اور اگر جمہوریت کے معنی الٹے سیدھے طریقوں سے اقتدار کا حصول ہے تو اس پر بھی یہاں دل و جاں سے عملدرآمد ہوتا ہے چونکہ نظام چلانے والے نہ ہی تو ملک و قوم کے ساتھ مخلص ہیں اور نہ ہی اس نظام سے جس نظام کے تحت وہ اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہوتے ہیں اور حکمرانی فرماتے ہیں۔

جمہوریت کی اصل روح اور بنیادی جزو برداشت ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ اقوام جہاں جمہوری طرز حکومت قائم ہے وہاں ہارنے والا جیتنے والے کو مبارکباد دیتا ہے اور ملک و قوم کی فلاح و بہبود کی خاطر اٹھائے گئے ہر اقدام کی حمایت کا یقین دلاتا ہے۔ ہمارے ہاں چونکہ جمہوریت نے ابھی گوڈوں پر چلنا شروع کیا ہے اور ہم جمہوریت کے ابتدائی مرحلے میں ہیں اس لیے ہمارے ہاں عدم برداشت کا دور دورہ ہے۔ ہر جیتنے والا انتخابات کو منصفانہ جبکہ ہارنے والا دھاندلی زدہ قرار دیتا ہے۔ ہارنے والا روز اول سے ہی اسی تگ و دو میں مصروف ہوجاتا ہے کہ وہ کن داؤ پیچ سے حکومت کی تانگیں کھینچنے اور اسے گرانے میں کامیاب ہوگا؟

اس چومکھی لڑائی میں وہ اقدار و روایات اور اخلاقیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اقتدار کی حصول کیلئے ہر حد پھلانگ دیتا ہے۔ ہارنے والے کو موقع ملتا ہے تو وہ فوج اور عدلیہ کو سیاست میں گھسیٹنے کی کوشش کرتا ہے، اسے اپنی حمایت کا یقین دلاتا ہے اور اپنی خدمات پیش کرنے میں ذرا سا بھی تامل نہیں کرتا۔

آج تک ہمارے ہاں جتنے بھی مارشل لاز لگے ہیں سیاستدانوں کے ایک بڑے گروہ نے اس کا خیرمقدم کیا ہے اور اپنے تعاون کا نہ صرف یقین دلایا ہے بلکہ عملاً حکومت میں شمولیت بھی اختیار کی ہے۔ ایوب خان اور یحییٰ خان کی مارشل لاؤں کی انہی سیاستدانوں نے حمایت کی بلکہ حکومت میں شامل ہوئے۔ جنرل ضیاء الحق مارشل لا کے ساتھ بھی انہی سیاستدانوں نے تعاون کیا اور آج جتنے بزعم خود جمہوریت کے چیمپئن سیاستدان ہیں ان کے آباء و اجداد فخریہ انداز میں کابینہ کا حصہ بنے۔ اسی طرح مشرف مارشل لا بھی سیاستدانوں کے تعاون سے ہی دوام پذیر رہا۔

مشرف دور سے ایک نئی روایت نے جنم لیا۔ جب اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان افتخار چوہدری نے اپنی برطرفی پر سٹینڈ لیا اور اسے جمہوریت سے جوڑ دیا تو خود کو جمہوریت پسند کہلوانے والے تمام سیاستدان افتخار چوہدری کے گرد اکٹھے ہوگئے۔ صبر آزما جدوجہد کے بعد جب انتخابات منعقد ہوئے اور نام نہاد جمہوریت بحال ہوئی تو اسی افتخار چوہدری نے حکومت کو سانس لینے کا موقع بھی فراہم نہیں کیا اور اسے کبھی ایک تو کبھی دوسرے بہانے تنگ کرنا شروع کردیا۔

تب سے پاکستانی سیاستدانوں نے یہ بھانپ لیا ہے کہ اقتدار کے حصول میں عدلیہ بھی معاون کا کردار ادا کر سکتی ہے۔ 2014ء میں عمران خان دھرنے کے دوران پی ٹی آ ئی کے صدر جاوید ہاشمی نے ایک تہلکہ خیز انکشاف کیا اور ڈنکے کی چوٹ پر الزام لگایا کہ پی ٹی آئی قیادت ایک جج کے چیف جسٹس بننے کے انتظار میں ہے تاکہ وہ چیف جسٹس بن کر حکومت کی رخصتی عمل میں لائیں۔

اس کے بعد تقریباً ہر چیف جسٹس سے یہ توقع وابستہ کی گئی کہ وہ حکومت کو کسی نہ کسی بہانے رخصت کرکے اپوزیشن کی اقتدار کیلئے راستہ ہموار کریں گے اور بدقسمتی سے گنتی کے چند ججز اقتدار کی لڑائی میں فریق بھی بنے اور یہی سلسلہ تاحال جاری ہے۔ اب تو صورتحال یہ ہے کہ ملک کے طول عرض میں سیاست سے دلچسپی رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ کون سا جج کس پارٹی کو فیور دیتا ہے اور کس کی مخالفت پر کمر بستہ نظر آتا ہے۔

گزشتہ انتخابات میں جو کچھ ہوا اس پر مزید تبصرے کی ضرورت نہیں مگر پی ٹی آئی سے الیکشن ایکٹ کی خلاف ورزی پر اس کا انتخابی نشان چھین لیا گیا جو بالکل درست عمل تھا اور اس عمل کو سپریم کورٹ کے بنچ نے لائیو سماعت کے دوران درست قرار دیا۔ اگر سیاسی جماعتیں الیکشن قوانین پر عملدرآمد نہیں کرتیں، اسے پرکاہ برابر اہمیت نہیں دیتیں، اس کا مذاق اڑاتی ہیں اور خود کو ان قوانین سے مبرّا سمجھتی ہیں تو الیکشن کمیشن کا فرض بنتا ہے کہ وہ ایسی جماعتوں کے خلاف اپنے دائرۂ اختیار کے تحت کارروائی کرے۔

پی ٹی آئی کو تین مرتبہ انٹرا پارٹی انتخابات کا موقع فراہم کیا گیا مگر اس کے قائد جو خود کو اس پارٹی کے ایم ڈی سمجھتے ہیں اور گزشتہ اٹھائیس برس سے اس کے چیئرمین بنے بیٹھے ہیں، اگر انہیں الیکشن کمیشن انٹرا پارٹی انتخابات کروانے کی ہدایت کرے اور وہ تین بار ہدایات کے باوجود ایسا نہ کریں تو الیکشن کمیشن کے پاس کیا چارہ رہ جاتا ہے؟ پھر الیکشن کمیشن نے اس جماعت کے خلاف جو فیصلہ دیا اسے سپریم کورٹ نے لائیو سماعت کے دوران شفاف انداز میں برقرار رکھا۔

انتخابات کے بعد اگر تحریک انصاف قیادت کے پاس فہم و فراست کی کمی تھی اور انہوں نے اپنے منتخب ارکان کو اپنی جماعت میں شامل کروانے کی بجائے ایک اور جماعت ہائیر کرلی اور یہ سب اس میں شامل ہوئے تو اس میں زیادتی والی کون سی بات آگئی؟ الیکشن کمیشن نے اس جماعت سے انتخابی نشان چھینا تھا، اسے کالعدم قرار نہیں دیا تھا، اس کے ارکان اپنی پارٹی میں شامل ہو سکتے تھے مگر پارٹی قیادت نے معقول طرز عمل اپنانے کی بجائے ایک ایسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کی جس نے نہ ہی انتخابات میں بطور سیاسی جماعت حصہ لیا تھا اور نہ ہی مخصوص نشستوں کیلئے الیکشن کمیشن کے پاس نام جمع کروائے تھے۔

اس کے باوجود سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کیلئے عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا۔ عدالت عظمیٰ نے ان کی درخواست تو مسترد کر دی مگر اس میں شامل ہونے والے اراکین کو تین ہفتے کا وقت دیکر پی ٹی آئی میں شامل ہونے کی ہدایت کر دی۔ سنی اتحاد کونسل کو لینے کے دینے پڑ گئے۔

اس فیصلے پر سنجیدہ نوعیت کے اعتراضات سامنے آئے ہیں۔ سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونے والے ارکان کو سپریم کورٹ ہدایت کرتی ہے کہ وہ دوسری جماعت میں شامل ہو جائیں۔ اس عمل سے فلور کراسنگ کا موجودہ قانون عضوئے معطل بن کر رہ گیا۔

(جاری ہے)

— وصال محمد خان

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket