افواج پاکستان کے خلاف سوشل میڈیا مہم

خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ میں ایک خاتون جو خود کو پاک فوج کے افیسر کی بیگم ظاہر کر رہی تھی کی جانب سے ہزارہ موٹروے پر مامور پولیس اہلکار سے لڑائی جھگڑے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، جس کے بعد اگلے دو دن تک مسلسل سوشل میڈیا پر پاک فوج کے خلاف شدید ہزرہ سرائی کی گئی۔

واقعے کے بعد تو جیسے پاک فوج مخالف قوتوں کو موقع ہاتھ آگیاکہ اسی واقعے کو بنیاد بنا کر پاک فوج کو قانون شکن، ظالم اور عوام دشمن ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔ ہزاروں کی تعداد میں جو پاک فوج مخالف ٹویٹس اور پوسٹ کی گئی ان کے سرورز اور آئی پی ایڈریسز افغانستان اور انڈیا سے بتائے گئے، ایک منظم پروپیگنڈا مہم کے ذریعےیہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ پاک فوج بحیثیت مجموعی “ادارہ” اس واقعے کا ذمہ دار ہے حالانکہ واقعے کے کچھ ہی دیر بعد فوجی ذرائع نے تصدیق کی کہ اعلیٰ قیادت نے نوٹس لیکر تحقیقات کا حکم دے دیا اور مانسہرہ پولیس نے بھی واقعے کی ایف آئی آر درج کی، لیکن ان مخصوص حلقوں کی جانب سے پاک فوج کے خلاف نفرت انگیز مہم اور الزامات کا سلسلہ تھم نہ سکا۔ جوکہ بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ غصہ خاتون پر نہیں بلکہ دراصل پاک فوج پر ہے اور اس واقعے کو اپنی مقصد کیلئے استعمال کیا گیا، خاتون نے جو بدتمیزی کی ، قانون توڑا اور کار سرکار میں مداخلت کی، غلط کیا، قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیئے، اور کوئی بھی اس کیلئے جواز پیش نہیں کرسکتا، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ واقعہ پاکستان میں پہلی بار نہیں ہوا، اس طرح کے سینکڑوں واقعات روزانہ کی بنیاد پر ہوتے ہیں ، جوکہ کم ہی کیمرے میں ریکارڈ یا سوشل میڈیا پر وائرل ہوتے ہیں، یہ واقعہ ایک کرنل کی بیوی کا نہیں بلکہ معاشرے میں پھیلے رجحان کی عکاس ہے وہ معاشرہ جو بدقسمتی سے توازن اور برداشت کھو چکی ہے، سماجی حیثیت او معاشرتی ناانصافی کی وجہ سے جس شخص کے پاس جتنی قدرت ہے وہ اسے بے دریغ اور بے رحمانہ استعمال کر رہا ہے،

دوسری جانب ہماری معاشرتی منافقت تو دیکھیں کہ ہم اس خاتون یا اسکے مبینہ فوجی افسر شوہر کو دشمن بناکر گالیاں دے رہے ہیں، حالانکہ ہم خود بھی فرشتے نہیں ، انسان ہیں اور اس معاشرتی بگاڑ اور ظلم وجبر پر مبنی نظام کے ذمہ دار ہیں، لیکن ستم بالائے ستم ہم اپنی غلطی بلکہ جرم کو مانتے بھی نہیں۔

کرنل کی بیوی نے جو کیا غلط کیا، لیکن ہم خود ناکوں پر کھڑی فوج یا پولیس کے ساتھ کتنا تعاون کرتے ہیں؟ ہم سرکاری افسر ہوں ، جج ہوں ، وکیل ہوں، ڈاکٹر ، صحافی ، ایم این اے، وزیر مشیر یا ناظم وکونسلر ہوں جب یہی فوجی جوان یا پولیس ہمیں روکتی ہے تو ہماری عزت نفس مجروح ہوتی ہے ہم اسے توہین سمجھتے ہیں اسی لئے تو ہم سب نے گاڑیوں کے نمبر پلیٹ پر بڑے بڑے حروف میں میڈیا، پریس، جج، وکیل، گورنمنٹ ، ناظم، سینیٹر، وزیر ایم این اے، ایم پی اے لکھا ہوتا ہے کہ پولیس والا دور سے ہی اسے پڑھے اور ہماری شان میں گستاخی کا ارتکاب نہ کرے دوسری جانب پولیس اہلکار یا تھانے کا عوام الناس کے ساتھ ذلت آمیز رویہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ؟ تو پھر ہم فوجی افسر یا اسکی فیملی کو کیوں اس معاشرے کا حصہ نہیں سمجھتے؟ حالانکہ فوج بھی اس معاشرے کا حصہ ہے اور معاشرے ہی سے اثر لیتا ہے ، کرنل کی بیوی کو سزا ہوجائیگی ،اور کرنل معافی بھی مانگ لے گا، لیکن کیا اس سے ہمارے معاشرے کے تمام مسائل حل اور برائیاں ختم ہوجائینگے؟ یقینا نہیں! یہ معاشرہ ہم سب کے انفرادی واجتماعی رویوں سے بنتا ہے اسے ٹھیک کرنے کیلئے ہم سب کو پہلے اپنے آپ کو ٹھیک کرنا ہوگا۔

اب آتے ہیں پاک فوج کے خلاف منظم پروپیگنڈا جنگ کی جانب   –   جو مخالف قوتیں جو یہ پروپیگنڈا کرتی ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج کے اعلیٰ افسران یعنی کرنیلوں ، جرنیلوں نے کونسی قربانیاں دی ہیں؟ ان کی معلومات کیلئے عرض ہے کہ ایک لیفٹینٹ جنرل اور چار میجر جنرلز سمیت درجنوں بریگیڈئیرز ، کرنل اور ہزاروں جوان دہشگردی کے خلاف جنگ میں شہید ہوئے ہیں ۔ دہشت گردوں نے 19 نومبر 2008 کو میجر جنرل (ر) فیصل علوی کو اسلام آباد میں شہید کیا، 8 اکتوبر 2008 کو جی او سی کوہاٹ میجر جنرل جاوید سلطان ، بریگیڈئیر محمد افضل چیمہ اور بریگیڈئیر سعید احمد کے ہمراہ ہیلی کاپٹر حادثہ میں شہید ہوئے۔

25 فروری 2008 کو لیفٹینٹ جنرل مشتاق احمد بیگ راولپنڈی خودکش حملہ میں شہید ہوئے،27 مئی 2009 کو آئی ایس آئی دفتر خود کش حملے میں کرنل عامر سمیت 30 جوان شہید، جبکہ 326 اہلکار زخمی ہوئے، 10 اکتوبر 2009 کو جی ایچ کیو حملے میں بریگیڈئیر انوارالحق سمیت 9 فوجی شہید ہوئے، 22 اکتوبر 2009 کو بریگیڈئیر معین الدین جبکہ 27 اکتوبر کو بریگیڈئیر وقار شہید ہوئے، 4 دسمبر 2009 کو آرمی پریڈ لین مسجد حملے میں میجر جنرل بلال عمر خان شہید ہوئے، ان کے ساتھ 2 بریگیڈئیر بھی شہید ہوئے، اسی حملے میں سابق وائس آرمی چیف جنرل یوسف خان زخمی ہوئے۔

ستمبر 2013 میں دیر بالا میں دہشتگردوں نے میجر جنرل ثنااللہ عباسی کو شہید کیا، اسی طرح یہ ہزاروں شہیدوں کی لہو سے لکھی گئی لمبی داستان ہے کہ کس طرح پاک فوج نے اپنی بہادری ، عزم اور حوصلے سے دہشتگردی کے خلاف جنگ جیت کر دنیا کو حیران اور دشمنوں کو مایوس کیا۔دوسری جانب سوشل میڈیا پر سرگرم مخالفین پاک فوج پر کرپشن کا الزام لگاتے ہیں اور یہ موقف پیش کرتے ہیں کہ اینٹی کرپشن یا نیب فوج کے کرپشن کیسز نہیں لیتا، ان کی خدمت میں عرض ہے کہ پاک فوج کے اندر خود احتسابی کا ایک فعال نظام موجود ہے جوکہ ادارہ جاتی ڈسپلن اور نظم وضبط کو قائم رکھتی ہے، افسران کے ذاتی اثاثے ہوں یا ان کے ادارے کے باہر لوگوں کے ساتھ کاروباری یا سماجی تعلقات ، تمام پر کھڑی نظر رکھی جاتی ہے، اسی اندرونی خود احتسابی کا ثبوت یہ ہے کہ سال 2014 میں ایک سپورٹس کار کی ملکیت و کرپشن اور ذرائع آمدن کی تحقیقات کے نتیجے میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے آئی جی ایف سی بلوچستان میجر جنرل اعجاز شاہد اور انکے پیش رو لیفٹینٹ جنرل عبیداللہ خٹک سمیت 6 افسروں کو عہدوں سے ہٹایا تھا۔

اس طرح کی درجنوں مثالیں اور خبریں موجود ہیں ، لیکن میڈیا کی زینت نہیں بنتی ، کیونکہ ان خبروں سے نہ تو ٹی وی چینلز کی ریٹنگ اوپر جاتی ہے اور نہ ہی سوشل میڈیا ٹرول آرمی کی ان میں کوئی دلچسپی ہے ، دوسری جانب ایک طرف انٹرنیشنل میڈیا میں پاک فوج کے بجٹ سے لیکرپاک فوج کے زیر اہتمام کاروباری اداروں اور مختلف محکموں میں فوجی افسران کی تعیناتی کی خبریں اعلیٰ داموں خریدی جاتی ہیں تو دوسری جانب فوج بیزار خودساختہ جمہوریت پسندوں اور لبرلز وانسانی حقوق کے بھیس میں این جی اور ایجنٹس غیر ملکی فنڈنگ کے حصول کیلئے ہر واقعے کو پاک فوج کی بدنامی کیلئے استعمال کرتے ہیں اور بدقسمتی سے ہمارے اپنے معصوم عوام سوشل میڈیا فالوونگ کے چکر میں انہی قوتوں کے آلہ کار بنتے ہیں۔

کسی بھی فوج کی طاقت عوام کی ان سے محبت اور ان پر اعتماد ہوتی ہے ، لہذا پاک فوج کو بھی چاہئیے کہ ان حالات میں عوام کے ساتھ اپنے رابطے مزید بڑھائیں اور مخالفین کونفرت اور تقسیم پیدا کرنے کے مواقع نہ دیں۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket