عقیل یوسفزئی
خیبر پختونخوا سمیت دیگر وفاقی یونٹوں میں 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کی تیاریاں عروج پر ہیں اور الیکشن کمیشن آف پاکستان نے الیکشن کے انعقاد کے لئے 44 ارب روپے کا بجٹ فراہم کرنے کے علاوہ پرامن انعقاد کو یقینی بنانے کیلئے وزارت داخلہ کو ایک مراسلہ بھیج کر تقریباً 6 لاکھ سیکیورٹی اہلکاروں کی فراہمی یا تعیناتی کا مطالبہ کیا ہے. دوسری جانب بعض سیاسی قوتیں اس خدشے کا اظہار کررہی ہیں کہ خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں سیکیورٹی کے درپیش چیلنجز کے باعث ان کو الیکشن کمپین چلانے میں مشکلات پیش آسکتی ہیں. اس نوعیت کے خدشات کا اظہار وزیر داخلہ سرفراز بگٹی اور خیبر پختونخوا کے گورنر حاجی غلام علی بھی متعدد بار کرچکے ہیں. تاہم ایسے سیاسی قائدین اور ماہرین کی بھی کوئی کمی نہیں ہے جن کا موقف ہے کہ سال 2008. سال 2013 اور 2018 کے مقابلے میں آج سیکیورٹی کے حالات کافی بہتر ہیں اس لیے اگر ان برسوں میں انتخابات ہوسکتے تھے تو اب بھی ہونے چاہئیں. الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سہولیات فراہم کرنے کے لیے 44 ارب روپے کا جو مطالبہ کیا ہے اس پر حکومت کا یہ موقف سامنے آیا ہے کہ اس ضمن میں 10 ارب پہلے ہی دیے گئے ہیں باقی اس ہفتے جاری کردیئے جائیں گے. تاہم الیکشن پراسیس کی سیکیورٹی کے لئے سیکورٹی اہلکاروں کی کمی کو کیسے پورا کیا جائے گا اس پر تاحال کوئی وضاحت سامنے نہیں آئی ہے کیونکہ اس کے لئے فوج سمیت دیگر سیکیورٹی اداروں کے ساتھ رابطہ کاری اور مشاورت لازمی ہے. رپورٹس کے مطابق صرف خیبر پختونخوا میں الیکشن کی سیکورٹی کے لئے ایک لاکھ پچاس ہزار کی نفری درکار ہے. ایک اندازے کے مطابق صوبے کی پولیس فورس کی کل تعداد تقریباً ایک لاکھ ہے. اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کو 50 سے 70 ہزار کی مزید نفری دیگر فورسز سے لینی پڑے گی. یہی صورت حال باقی تین صوبوں کو بھی درپیش ہے.
دوسری جانب مختلف صوبوں میں سیاسی جماعتوں کے درمیان اتحادوں اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا سلسلہ جاری ہے. مسلم لیگ ن اور جے یو آئی کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ ان کے درمیان مشترکہ الیکشن لڑنے پر اتفاق ہو گیا ہے اب تفصیلات طے کرنی باقی ہے. پیپلزپارٹی بھی بعض چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ رابطوں میں ہے جبکہ اے این پی نے سندھ میں خلاف توقع پیپلزپارٹی کی بجائے اپنی روایتی حریف ایم کیو ایم سے اتحاد کا فیصلہ کیا ہے جس پر بعض لوگ حیرت کا اظہار کررہے ہیں. تحریک انصاف کو 9 مئی کے واقعات کے تناظر میں لیڈر شپ کی عدم موجودگی اور امیدواروں کی عدم دستیابی کا سامنا ہے اور شاید اسی لیے یہ وہ واحد پارٹی ہے جس نے تاحال امیدواروں کو ٹکٹ دینے کی پراسیس کا آغاز بھی نہیں کیا ہے. جماعت اسلامی نے گزشتہ روز مرکزی امیر سراج الحق کی موجودگی میں پشاور میں ایک تقریب کے دوران صوبے کے لیے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کی لسٹ جاری کردی. جن کی مجموعی تعداد تقریباً 100 بنتی ہے. اے این پی کی تیاریاں اور سرگرمیاں بھی جاری ہیں تاہم اس تمام منظر نامے میں خیبر پختونخوا میں پیپلز پارٹی کی سرگرمیاں سب سے کم دکھائی دے رہی ہیں کیونکہ اس پارٹی کو اندرونی اختلافات کا سامنا ہے اور مرکزی قیادت کی توجہ بھی باقی 3 صوبوں پر مرکوز ہے.
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد ایک آئینی تقاضا ہے تاہم اس تلخ حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ملک کو واقعتاً سیکیورٹی اور معاشی چیلنجز کا بھی سامنا ہے اس لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو سیاسی کشیدگی اور تلخی کم کرنے کے علاوہ ان دو بڑے چیلنجز کو بھی ذہن میں رکھنا ہوگا.