پی ٹی ایم پر پابندی لگانے کا ریاستی بیانیہ
وزیر داخلہ محسن نقوی نے ایک پریس کانفرنس میں پی ٹی ایم پر پابندی لگانے کا باقاعدہ اعلان کرتے ہوئے انتہائی سخت لہجہ اور رویہ اختیار کیا اور کہا ہے کہ پی ٹی ایم ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور اس کے رہنما اور حامی برسوں سے نہ صرف پاکستان کو گالیاں دیتے آرہے ہیں بلکہ اس کے بعض پاکستان مخالف ممالک اور قوتوں سے روابط بھی ہیں ۔ وزیر داخلہ کے مطابق پی ٹی ایم ناقابل برداشت ہوگئی ہے اس لیے حکومت نے اس پر پابندی عائد کردی ہے اور اس کے رہنماؤں اور حامیوں کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں گے اور ان کے شناختی کارڈز ، بنک اکاونٹس اور پاسپورٹ بھی بلاک کیے جائیں گے ۔ اس سے ایک روز قبل وفاقی وزیر اطلاعات عطاء تارڑ نے بھی ایک پریس کانفرنس میں دوسرے الزامات کے علاوہ پی ٹی ایم پر ٹی ٹی پی اور افغان طالبان کے ساتھ رابطوں کا الزام بھی لگایا اور کہا کہ پی ٹی ایم کو باہر سے فنڈنگ ہوتی رہی ہے ۔
پی ٹی ایم کے 11 اکتوبر والے جمرود جرگہ پر پابندی عائد کردی گئی ہے اور خیبرپختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف نے بھی ایک بیان میں اس تنظیم کو کالعدم قرار دے دیا ہے اور موقف اختیار کیا ہے کہ صوبائی حکومت وفاقی وزارت داخلہ کے احکامات کی پیروی کرے گی ۔
اس تمام صورتحال کو جمہوری تقاضوں کے مطابق خوش آئند قرار نہیں دیا جاسکتا تاہم موجودہ وفاقی حکومت اور ملٹری اسٹبلشمنٹ کا رویہ نہ صرف پی ٹی ایم کے خلاف کافی سخت دکھائی دیتا ہے بلکہ پی ٹی آئی اور ٹی ٹی پی کے ساتھ بھی ماضی کے برعکس انتہائی سخت پالیسی اختیار کی گئی ہے ۔ مقتدرہ نے ان تین قوتوں کو اینٹی اسٹیٹ قرار دے رکھا ہے اس لیے کسی مجوزہ نرمی یا رعایت کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا ۔
پی ٹی ایم کے 11 اکتوبر والے جمرود جرگہ کی جس طریقے سے ٹی ٹی پی نے کھل کر حمایت کی اور جس انداز میں بعض افغان لیڈرز نے اس ایونٹ کے حق میں باقاعدہ مہم چلائی اس کے ردعمل میں پاکستانی ریاست کچھ زیادہ حساس ہوکر سخت ترین پالیسی پر اتر آئی ہے ۔ اس بات سے قطع نظر کہ پی ٹی ایم کے بانی نے اس ایونٹ اور دیگر سرگرمیوں کو پاکستان کی آئینی چوکاٹ کے عین مطابق قرار دے دیا ہے اس تلخ حقیقت کو پھر بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ پی ٹی ایم کو واقعتاً بعض پاکستان مخالف قوتوں اور پراکسیز کی حمایت حاصل ہے اور اس معاملے پر پاکستان کی ریاست خاص طور پر سیکورٹی فورسز کی حساسیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پی ٹی ایم سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز معاملات کی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے جذبات اور کشیدگی بڑھانے سے گریز کریں کیونکہ خیبرپختونخوا کے حالات اور چیلنجز کافی مختلف ہیں اور بعض خدشات کو نظر انداز کرنا شاید اب ممکن دکھائی نہیں دیتا ۔
عقیل یوسفزئی