انضمام کے بعد قبائلی علاقوں کے صورتحال

تحریر؛ عماد خان
فاٹاانضمام کے بعد قبائلی علاقوں میں حکومت کی جانب سے ترقیاتی منصوبوں پرکام کاآغازکردیاگیاہے۔ ضم اضلاع میں خیبرپختونخواحکومت کی حالیہ بجٹ میں مجموعی طور پر 349منصوبوں کیلئے 38ارب 3کروڑ 38لاکھ7ہزارروپے رکھنے کی تجویز ہے صوبائی اسمبلی میں مالی سال 2023-22 کی تجویزکردہ بجٹ میں ضلع جنوبی وزیرستان کے93منصوبوں کیلئے سب سے زیادہ پانچ ارب2کروڑ8لاکھ تین ہزار،خیبرکے53منصوبوں کیلئے3ارب 98کروڑ36لاکھ4ہزار،اس طرح مہمندکے24منصوبوں کیلئے 3ارب ایک کروڑ39لاکھ90ہزار،جنوبی وزیرستان کے 42منصوبوں کیلئے2ارب سترہ کروڑ37لاکھ80ہزار،باجوڑکے32منصوبوں کیلئے1ارب86کروڑ56لاکھ50ہزار،اورکزئی کے22منصوبوں کیلئے 1ارب81کروڑ40لاکھ4ہزاراورکرم کیلئے 32منصوبوں کیلئے1ارب 40کروڑ72لاکھ روپے کی رقم تجویزکی گئی ہے۔
حکومت کی یہی کوشش رہی ہے کہ ملک بھرکے دیگرشہروں کی طرح ضم اضلاع میں تعلیم،صحت،روزگاراورانفرسٹرکچرکے منصوبوں کاجال بچھایاجائے وفاقی اورصوبائی حکومتوں کی جانب سے ملک کے بڑے درسگاہوں development in merged districts KPمیں قبائلی نوجوانوں کیلئے سکالرشپس کی مدمیں فنڈمختص کئے جائے اس طرح ایچ ای سی کی جانب سے بھی یونیورسٹیوں میں قبائلی علاقہ جات کے طلباء کیلئے خطیررقم جاری کرائی جاتی ہے جس کے باعث ہزاروں طلباء وطالبات تعلیم کے زیور سے مزین و روشناس ہورہے ہیں۔
بچوں کو یکساں تعلیم کی سہولیات فراہم کرنے کیلئے محکمہ ابتدائی وثانوی تعلیم کے مطابق قبائلی اضلاع میں مجموعی طورپر 6 ہزار353سرکاری سکول قائم کئے جاچکے ہیں ان سکولوں میں تین ہزار624لڑکوں جبکہ2ہزار729سکولزلڑکیوں کیلئے بنائے گئے ہیں۔سرکاری دستایزکے مطابق صوبائی حکومت کاضم ضلاع میں 443نئے سکولزکی تعمیرکے حوالے سے اقدامات پرغورکررہی ہے جوسال 2024ء تک مکمل کی جائے گی نئے تعمیرہ کردہ سکولوں میں پرائمری،مڈل اورہائیرسیکنڈری سکولزشامل ہیں۔
قبائلی اضلاع کی احساس محرمیوں کودورکرنے کیلئے قومی اسمبلی میں نمائندگی کاحق دے دیاگیا ہے اور قبائلی علاقوں سے منتخب ہونیوالے ارکان اسمبلی پارلیمنٹ کے فلورپراپنے علاقوں کی درپیش مسائل کے حل کیلئے آوازٹھا رہے ہیں جبکہ ہرسال اسمبلیوں سے بجٹ کی منظوری میں اپنے حلقوں کیلئے ترقیاتی منصوبوں کی منظوری لیتے ہیں
عدالتی نظام کی بات کی جائے توضم اضلاع کے عوام کوانصاف کی فراہمی کیلئے عدالتوں کاقیام عمل میں لایاگیاہے انضمام سے پہلے فاٹامیں عدالتوں کاکوئی تصورنہیں تھا وہاں پرسارے فیصلے ایف سی آرقانون کے تحت ہورہے تھے جس سے عوام کوکافی مشکلات کاسامناکرناپڑاتھاحکومت نے انضمام کے بعدعدالتوں کے قیام کیلئے بھی اقدامات اٹھاناشروع کردیئے عدالتی نظام کامقصدصر ف تنازعات کاخاتمہ نہیں بلکہ انصاف کو برقرار رکھنابھی ہوتاہے عدالتیں عوام کی انصاف کیلئے ایک آسان راستہ ہے مقدمات کی بڑھتی ہوئی معاملات کو درست کرنے کیلئے عدالتوں کاقیام انتہائی اہمیت کاحامل ہوتاہے۔
اس کے ساتھ ساتھ لوکل گورنمنٹ سسٹم اور اسکے ماتحت ادارے بھی قبائلی علاقوں میں فعال کئے گئے تاکہ مقامی سطح پر لوگوں کے مسائل ترجیحی بنیادوں پرحل کیئے جائے۔ انضام کےبعد ان علاقوں میں مواصلات کے نظام پر بھی کام تیز کردیاگیاہے اور مختلف اضلاع سے انہیں سڑکوں کے ذریعے ملایا جارہاہے تاکہ لوگوں کو آمدرفت میں آسانی پیدا ہو اس کے ساتھ ساتھ پڑھائی کیلئے یونیورسٹی، ٹیکنیکل کالج اور بچوں کیلئے سکولز کی تعمیرات پر بھی کام شروع ہوچکا ہے جبکہ صحت کے شعبے میں ہسپتال، ریسکیو سروس کی بحالی، نوجوان نسل کیلئے کھیل کود کے گراونڈ اور صحافیوں کی فلاح وبہبود کیلئے پریس کلبوں کی تعمیر بھی ان منصوبوں میں شامل ہیں حکومت کی یہی کوشش رہی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے بہتر مستقبل کیلئے زیادہ سے زیادہ کام کریں۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket