عقیل یوسفزئی
پاکستان ایئر فورس نے سرکاری تصدیق کیے بغیر گزشتہ شب وزیرستان سے ملحقہ افغانستان کے صوبہ پکتیکا میں متعدد حملے کرتے ہوئے پاکستانی شدت پسند تنظیم حافظ گل بہادر کے متعدد مبینہ ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جبکہ گزشتہ تین چار دنوں کے دوران پاکستان اور افغانستان کے درمیان اعلان کردہ سیز فائر کے باوجود مختلف دو طرفہ حملوں اور کارروائیوں کے نتیجے میں خیبرپختونخوا کے مختلف سرحدی علاقوں میں 100 سے دہشت گردوں کو ہلاک کردیا گیا جبکہ 8 سے زائد سیکورٹی اہلکاروں کی شہادتیں بھی ہوئیں ۔
پاکستان کے سیکورٹی ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ پکتیکا میں واقع دہشت گرد ٹھکانوں میں 50 سے زیادہ دہشت گردوں کو ہلاک کردیا گیا ہے تاہم افغان میڈیا اور حکام نے موقف اختیار کیا کہ ان حملوں میں کرکٹ کے بعض کھلاڑیوں سمیت عام شہریوں کو نشانہ بنایا گیا ہے ۔ یہی بحث گزشتہ ماہ انہی علاقوں میں کرایے گیے حملوں کے دوران بھی سامنے آئی تھی ۔
افغان حکام کے مطابق پکتیکا پر حملے کرکے پاکستان نے سیز فائر کا معاہدہ توڑ دیا ہے تاہم دوسری جانب سے یہ کہا جاتا رہا کہ آج یعنی 18 اکتوبر کو دوحہ قطر میں پاکستانی اور افغان وفود کے درمیان حالیہ کشیدگی پر مذاکرات ہوں گے ۔ میڈیا رپورٹس میں یہ بھی بتایا گیا کہ پاکستانی وفد میں دوسروں کے علاوہ آئی ایس آئی کے سربراہ اور قومی سلامتی کے مشیر جنرل عاصم ملک بھی شامل ہوں گے ۔ ماہرین کے مطابق اس پراسیس اور سیز فائر کو قطر کے علاوہ سعودی عرب اور چین کی حمایت بھی حاصل ہے تاہم تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان کی مسلسل ائیر اسٹرایکس اور وزیر دفاع خواجہ آصف سمیت دیگر کے جارحانہ انداز گفتگو سے یہ لگ رہا ہے کہ پاکستان اب کے بار کراس بارڈر ٹیررازم کے خاتمے کی آخری یقین دہانی کرایے بغیر مصالحت نہیں کرے گا ۔
خواجہ آصف نے کہا ہے کہ سال 2021 کو طالبان رجیم کے برسر اقتدار آنے کے بعد پاکستان پر افغانستان کی سرپرستی میں 10 ہزار سے زائد دہشت گرد حملے کیے ہیں جن میں سیکورٹی فورسز اور عوام کے 3844 آفراد شہید ہوئے ہیں ۔ ان کے بقول پاکستان کے اعلیٰ ترین حکام نے جہاں اس عرصے میں ایک انگیجمٹ پراسیس کے ذریعے تقریباً 10 بار کابل کے دورے کیے بلکہ مختلف فورمز کے ذریعے سینکڑوں بار افغانستان پر زور دیا گیا کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں مگر رواں مہینے افغانستان نے بھارت کی پراکسی بن کر پاکستان پر حملے کیے جن کا نہ صرف جواب دیا گیا بلکہ اب افغانستان کے ساتھ ماضی کے برعکس دشمن کی طرح سلوک کیا جائے گا ۔
اسی تناظر میں 16 اکتوبر کو اسلام آباد میں وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ایک ہنگامی اجلاس منعقد ہوا جس میں تین وزراء اعلیٰ اور وفاقی وزراء سمیت فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے بھی شرکت کی ۔اس اجلاس میں کراس بارڈر ٹیررازم پر سخت ردعمل دینے کا فیصلہ کیا گیا جبکہ یہ بھی طے پایا کہ پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کو ہر صورت میں باہر نکالا جائے گا ۔ اجلاس میں خیبرپختونخوا کے نو منتخب وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی دعوت کے باوجود یہ کہہ کر شریک نہیں ہوئے کہ وہ عمران خان کی اجازت کے بغیر ایسے کسی اجلاس میں شریک نہیں ہوسکتے جس پر مختلف سیاسی اور عوامی حلقوں نے شدید تنقید کی کیونکہ جاری جنگ سے انہی کا صوبہ سب سے زیادہ متاثر ہوتا آرہا ہے ۔
دوسری جانب کابل سے اس قسم کی اطلاعات موصول ہوتی رہیں کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات اور بعض دیگر معاملات پر دو بڑے اسٹیک ہولڈرز حقانی نیٹ ورک اور قندھاری گروپوں میں شدید اختلافات پیدا ہوگئے ہیں اور اس قسم کی اطلاعات زیر گردش رہیں کہ شاید افغانستان میں رجیم چینج کی کوئی صورت حال پیدا ہو ۔ اسی روز یہ خبر سامنے آئی کہ افغان طالبان کے سربراہ شیخ ہیبت اللہ نے نایب وزیر داخلہ کو ان کے عہدے سے برخاست کرکے اپنا بندہ تعینات کردیا ہے کیونکہ وہ وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں ۔ اسی ہی دوران کالعدم ٹی ٹی پی نے اپنے سربراہ مفتی نور ولی محسود کی ایک ویڈیو جاری کی جس میں انہوں نے کہا کہ وہ زندہ اور محفوظ ہیں اور یہ کہ وہ افغانستان کی بجائے اپنے قبائلی علاقوں میں موجود ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے اس پروپیگنڈا میں کوئی حقیقت نہیں کہ ہم افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے آرہے ہیں ہم افغانستان کی جگہ پاکستان کے اپنے قبائلی علاقوں ہی میں موجود رہ کر پاکستان کے خلاف جنگ لڑرہے ہیں ۔
رواں مہینے یعنی ماہ اکتوبر کے دوران اس تمام منظر نامے میں جس تیزی کے ساتھ پاکستان اور افغانستان کے کشیدہ تعلقات حالات جنگ میں تبدیل ہوئے اور جس تیزی کے ساتھ دو طرفہ حملوں کی تعداد بڑھتی گئی وہ دوسروں کے علاوہ ماہرین اور دوست ممالک کے لیے بھی غیر متوقع اور تشویش ناک ثابت ہوئے اور لگ یہ رہا ہے کہ جاری جنگ میں اب نہ صرف پاکستان کے اندر تیزی واقع ہوگی بلکہ یہ پاکستان سے باہر بھی لڑی جائے گی ۔
( 17 اکتوبر 2025 )
