آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے دہشت گردوں اور شرپسندوں کو وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ہتھیار پھینک کر ہی ریاست سے رحم کی توقع رکھ سکتے ہیں اور یہ کہ گمراہ گروہ کو یہ اجازت قطعاً نہیں دی جائے گی کہ وہ انتہا پسندی پر مبنی اپنی اقدار اور نظریات ہمارے ملک پر مسلط کرے۔ اسٹوڈنٹس سے مخاطب ہوتے ہوئے آرمی چیف نے کہا ہے کہ فتنہ الخوارج اسلام سے نابلد ایک فسادی خارجی گروپ ہے جس کے خلاف پاکستان کی افواج پورے عزم کے ساتھ لڑرہی ہیں اور اس جنگ میں پاکستان کے عوام اپنی فوج کے ساتھ کھڑے ہیں۔ آرمی چیف کے بقول پاکستان کی فوج ایک منظم قومی فوج ہے اور اس میں تمام قومیتوں اور علاقوں کی نمائندگی موجود ہے اس کے باوجود اس کا موٹو یہ ہے کہ ہم سب پاکستانی ہے اور پاکستان ہی ہماری پہچان ہے۔ آرمی چیف نے اسٹوڈنٹس اور نئی نسل سے مخاطب ہوکر مزید کہا ہے کہ وہ سوشل میڈیا کے غلط اور غیر ذمہ دارانہ استعمال سے خود کو دور رکھیں اور پاکستان کی تعمیر وترقی میں اپنا مثبت اور فعال کردار ادا کریں ۔ ان کے بقول کسی کو پاکستان کے مستقبل سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے اور جو عناصر پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش کرتے ہوئے فساد پھیلانے کی کوششیں کررہے ہیں عوام کی مدد سے ان کا خاتمہ کیا جائے گا اگر وہ ہم سے کسی رحم کی توقع رکھتے ہیں تو اس کے لیے ان کو پہلے ہتھیار ڈالنے ہوں گے۔
آرمی چیف نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے بلاشبہ اس میں نہ صرف یہ کہ واضح پیغام ہے بلکہ یہ وارننگ بھی ہے اور جاری دہشت گردی کے علاوہ پاکستان کو جس نوعیت کی ڈیجیٹل دہشتگردی کا سامنا ہے اس کے اثرات کا ایک طرح سے ادراک بھی ہے۔ اقوام متحدہ نے پاکستان کے خلاف دہشت گرد گروپوں کی کارروائیوں سے متعلق حال ہی میں جو رپورٹ جاری کی ہے اس نے پاکستان کے اس موقف کو درست ثابت کردیا ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہورہی ہے۔ مذکورہ رپورٹ میں نشاندھی کی گئی ہے کہ پاکستان کی افواج مختلف دہشت گرد گروپوں کے خلاف سخت کارروائیاں کرتی آرہی ہیں تاہم دوسری جانب خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت نے گزشتہ روز وفاقی حکومت کے دائرہ اختیار میں مداخلت کرتے ہوئے ایک بار پھر اعلان کیا ہے کہ وہ کابل دو وفود بھیج رہی ہے جو کہ ٹی ٹی پی کے معاملے پر افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کریں گے ۔ مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف کے بقول صوبائی حکومت نے افغانستان کے دورے کے لیے ٹی او آرز تیار کرلئے ہیں اور انہوں نے اس ” پراجیکٹ” کو کراس بارڈر ڈپلومیسی کا نام دیا ہے۔
اسی تناظر میں ترجمان دفتر خارجہ نے ایک بار پھر واضح کردیا ہے کہ خارجہ پالیسی اور اس سے متعلقہ امور وفاق کا دائرہ کار ہیں اس لیے اس قسم کی کسی بھی ڈپلومیسی وفاقی حکومت ہی کے ڈومین میں آتی ہے ۔ اس صورتحال کے تناظر میں ضرورت اس بات کی ہے کہ اگر صوبائی حکومت ماضی کی طرح ایک بار پھر طالبان وغیرہ کے ” جرگے ” کرکے ان کی حیثیت منوانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے تو کیا اس ” مہم جوئی” کو وفاقی حکومت، مسلح افواج اور مقبول پارٹیوں کا مینڈیٹ حاصل ہے یا نہیں ؟ اس کا جواب فی الحال تو نا میں ہے کیونکہ پاکستان کی ریاست تو جنگ لڑرہی ہے اور آرمی چیف کے مذکورہ موقف میں ” ہتھیار” پھینکنے کی شرط رکھی گئی ہے۔ جس مشاورتی عمل کی بنیاد پر پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت مذاکرات کی بات کر رہی ہے اس میں پرو طالبان گروپ ہی شامل ہیں اس لیے اس قسم کی کسی مہم جوئی کو ریاست پاکستان کا اقدام قرار نہیں دیا جاسکتا۔ پاکستان کو کھلی دہشتگردی کے علاوہ جس نوعیت کی ” ڈیجیٹل دہشتگردی” کا سامنا ہے پی ٹی آئی اس میں مرکزی کردار ادا کرتی آرہی ہے۔ اس لیے پہلے وہ اس دہشتگردی سے باز آجائیں پھر جاکر دوسرے معاملات میں ٹانگ اڑانے کی کوشش کریں۔
عقیل یوسفزئی