Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Monday, March 17, 2025

مذہبی رہنماؤں اور علماء پر حملوں کا پس منظر

پاکستان کے مختلف صوبوں بالخصوص خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں مذہبی رہنماؤں اور اہم علماء کو شہید کرنے کا سلسلہ دہشتگردی کے خلاف جنگ کے آغاز کے فوراً بعد شروع ہوا ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق سال 2004 کے بعد تقریباً 98 علماء یا مذہبی رہنماؤں کو دہشت گرد حملوں اور دیگر کارروائیوں میں شہید کیا جاچکا ہے۔ اسی سلسلے میں رواں برس ان حملوں کی تعداد میں مزید اضافہ واقع ہوا جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ ڈھائی ہفتوں کے دوران تین اہم مذہبی رہنماؤں کو شہید کردیا گیا ہے۔ جے یوآئی ( س ) کے امیر مولانا حامد الحق کو متعدد دیگر کے ہمراہ 28 فروری کو اکوڑہ خٹک میں خودکش حملے کا نشانہ بنایا گیا تو دوسری طرف اسی دوران بلوچستان کے علاقے تربت میں مفتی شاہ میر بزنجو نامی نامور عالم دین کو قتل کردیا گیا ۔ ان پر بھارتی ایجنٹ کلبھوشن کی گرفتاری میں پاکستانی اداروں کے ساتھ تعاون کا ” الزام” تھا۔ 15 مارچ کی شام کو پشاور کے علاقے ارمڑ میں ” لشکر اسلام ” نامی انتہا پسند گروپ کے بانی مفتی منیر شاکر کو بم دھماکہ سے شہید کردیا گیا ۔ اگر چہ اس واقعے کی زمہ داری تاحال کسی نے نہیں لی ہے مگر باخبر حلقوں کا خیال ہے کہ ان کو انہی کے قایم کردہ گروپ یا داعش خراسان نے نشانہ بنایا ہوگا۔
جن جن قابل ذکر رہنماؤں یا علماء کو اس تمام عرصے کے دوران شہید کردیا گیا ہے ان میں اکثریت ان کی ہے جنہوں نے مختلف اوقات میں خودکش حملوں سمیت عام شہریوں کو نشانہ بنانے کی مخالفت کی اور ان کی اکثریت طالبان وغیرہ کے مختلف ادوار میں حامی رہے ۔ طالبان کے سب سے بڑے حامی مولانا نظام الدین شامزئی کو مئی 2004 میں کراچی میں شہید کردیا گیا ۔ اگر چہ اس کی زمہ داری ایک لسانی گروپ پر ڈالنے کی کوشش کی گئی مگر باخبر حلقوں کو علم تھا کہ ایک جہادی گروپ ہی نے انہیں نشانہ بنایا تھا۔
اسی طرح سابق رکن قومی اسمبلی مولانا حسن جان کو ستمبر 2007 میں ان کے ایک انتہا پسند شاگرد نے پشاور میں اس وجہ سے بے دردی کے ساتھ شہید کیا کہ انہوں نے خودکش حملوں کو خلاف شریعت قرار دیا تھا ۔
2008 کے بعد مختلف اہم مذہبی رہنماؤں ، ان کے اجتماعات اور عہدے داروں کو خودکش حملوں سمیت مختلف طریقوں سے نشانہ بنانے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں ۔ ان حملوں کے دوران دوسروں کے علاوہ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان ، جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین اور جے یو آئی کے ایک اور اہم لیڈر مولانا محمد خان شیرانی کو بھی متعدد بار نشانہ بنایا گیا جبکہ مولانا سمیع الحق کو پراسرار طور پر چند برس قبل اسلام آباد میں شہید کیا گیا۔
علماء اور مذہبی لیڈروں کی طرح ان کے اجتماعات اور عہدے داروں پر بھی مسلسل حملے کیے گئے ہیں ۔ اس ضمن میں جے یو آئی کی مثال دی جاسکتی ہے جس کے ایک ورکرز کنونشن کو 30 جولائی 2023 کے روز باجوڑ میں داعش نے خودکش حملے کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں 45 افراد شہید ہوگئے ۔ اسی طرح جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک سے فارغ التحصیل افغان طالبان کے ایک بڑے حامی مفتی رحیم حقانی کو دیر کالونی پشاور میں ان کے مدرسے میں 27 اکتوبر 2020 کو دہشت گرد حملے کا نشانہ بنایا گیا وہ زخمی ہوکر بچ گئے مگر اس حملے میں 8 دیگر شہید ہوگئے ۔ رحیم حقانی کو بعد میں اگست 2022 کو کابل میں حملہ کرکے شہید کردیا گیا اور اس کی ذمہ داری داعش خراسان نے قبول کی۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق گزشتہ 2 برسوں کے دوران صرف جے یو آئی ( ف ) سے تعلق رکھنے والے تقریباً 23 عہدے داروں اور علماء کو دہشت گرد کارروائیوں کا نشانہ بنایا گیا ہے ۔ اس سلسلے میں ٹانک کے ایک مدرسے پر گزشتہ روز ہونے والے اس حالیہ حملے کی مثال دی جاسکتی ہے جس میں پارٹی کے اہم رہنما مولانا ندیم عبداللہ کو بم دھماکہ کے ذریعے نشانہ بناتے ہوئے 3 دیگر کے ہمراہ زخمی کردیا گیا۔
حالیہ پے درپے حملوں کے طریقہ واردات اور ٹارگٹ سیلیکشن کا جائزہ لیا جائے تو ثابت یہ ہوتا ہے کہ یہ تمام کارروائیاں ایک منظم منصوبہ بندی کے ذریعے کی جارہی ہیں ۔ جس شام کو پشاور میں مفتی منیر شاکر کو شہید کردیا گیا اسی رات دیر گئے اس قسم کی اطلاعات بھی زیر گردش کرتی رہیں کہ پنجاب کے ضلع جہلم اور اس کے گردونواح میں ایک اور حملے کے دوران ایک کشمیر بیسڈ جہادی گروپ کے ایک اہم کمانڈر پر بھی حملہ کردیا گیا ہے جس کے نتیجے میں وہ شدید زخمی ہوگئے ہیں ( تاحال تصدیق نہیں ہوسکی ہے)۔
اس تمام منظر نامے کا خلاصہ یہ بنتا ہے کہ اگر ایک طرف پاکستان کی سیکورٹی فورسز اور بعض سیاسی پارٹیوں کو مسلسل حملوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے تو دوسری جانب گزشتہ چند برسوں سے بعض مذہبی جماعتوں اور علماء پر ہونے والے حملوں کی شرح میں بھی اضافہ ریکارڈ ہوا ہے اور اسی نوعیت کے حملے مذہبی رہنماؤں اور کمانڈروں پر افغانستان میں بھی کیے جاتے رہے ہیں۔
اس سلسلے میں کالعدم ٹی ٹی پی کے سینئر رہنما اور جماعت الاحرار کے بانی عمر خالد خراسانی اور حقانی نیٹ ورک کے مرکزی رہنما ، وزیر خلیل حقانی کی کو نشانہ بنانے سمیت متعدد دیگر ہائی پروفائل شخصیات کو نشانہ بنائے جانے والے واقعات سے لگایا جاسکتا ہے۔

عقیل یوسفزئی

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket