عقیل یوسفزئی
پشاور ہائی کورٹ کو گزشتہ دو تین مہینوں سے اس کے سیاسی فیصلوں کے باعث سیاسی، صحافتی اور عوامی حلقوں کے علاوہ ماہرین قانون اور وکلاء کی جانب سے بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور شاندار روایات کی حامل پشاور ہائی کورٹ کی ساکھ اور شہرت دونوں کو سخت نقصان پہنچا ہے جو کہ افسوسناک ہونے کے علاوہ تکلیف دہ بھی ہے. یہ کتنی افسوس ناک بات ہے کہ جب گزشتہ جمعہ کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ایک طے شدہ طریقہ کار کے مطابق تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کے معاملے پر اس پارٹی سے اس کا انتخابی نشان واپس لے لیا تو اسی روز تجزیہ کاروں نے سوشل میڈیا کے علاوہ مین سٹریم میڈیا پر بھی ایڈوانس میں کھلے عام کہنا شروع کردیا کہ پیر یا منگل کو پشاور ہائی کورٹ کے دروازے کھلنے دیں منٹوں کے اندر الیکشن کمیشن کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے گا. یہی بات مذکورہ پارٹی کے رہنما اور وکلاء بھی کہتے رہے اور عجیب اتفاق یہ ہے کہ پشاور ہائی کورٹ کا عین انہی توقعات کے مطابق فیصلہ سامنے آیا. اس سے قبل سپریم کورٹ کے ایک جج کی جانب سےسایفر کیس میں ایک اضافی نوٹ کو بھی “غیر ضروری اور سہولت کاری” کا نام دیکر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا. اس تمام صورتحال نے جہاں ایک طرف اکثر سیاسی جماعتوں کے علاوہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھی اعلیٰ عدلیہ کے مد مقابل کھڑا کردیا ہے وہاں اس سے جاری انتخابی مہم اور متعلقہ اداروں کی کارکردگی پر بھی اثر پڑتا دکھائی دے رہا ہے. سینئر قانون دان نورعالم خان ایڈووکیٹ کے مطابق ان کو یہ منطق سمجھ نہیں آرہی کہ الیکشن کمیشن اور دیگر متعلقہ اداروں کے دفاتر وغیرہ اسلام آباد میں ہیں اور فیصلے بھی اسلام آباد ہی سے آتے رہے ہیں مگر ان فیصلوں کو منسوخ یا کالعدم قرار دینے کے احکامات پشاور ہائی کورٹ سے جاری ہورہے ہیں اور 9 مئی کے واقعات میں ملوث لیڈروں کو ضمانتیں بھی ادھر سے مل رہی ہیں. ان کے مطابق پشاور ہائی کورٹ کو نہ صرف متنازعہ بنایا گیا ہے بلکہ کچھ عرصہ سے اس کو سیاسی اکھاڑے میں بھی تبدیل کردیا گیا ہے جو کہ افسوسناک ہے. سینئر تجزیہ کار رضی دادا کے مطابق پشاور ہائی کورٹ نے کافی عرصہ سے مبینہ عدالتی ” سہولت کاری” کے ایک مرکز کی شکل اختیار کی ہوئی ہے اور جب بھی ایک مخصوص پارٹی اس کورٹ سے رجوع کرتی ہے سب کو ایڈوانس میں پتہ چل جاتا ہے کہ ادھر سے کیا فیصلہ آنے والا ہے.