عقیل یوسفزئی
دنیا کے کئی ممالک بے چینی اور کشیدگی کے علاؤہ اندرونی عدم استحکام اور تصادم کی صورت حال سے دوچار ہیں ۔ یہاں تک کہ گزشتہ روز امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک اہم ساتھی اور اتحادی کو گولیوں کا نشانہ بناکر ہلاک کردیا گیا جبکہ فرانس میں بھی ہزاروں لوگ اچانک حکومت کے خلاف نکل آئے ۔ اس سے قبل جہاں ایک طرف اسرائیل نے امریکہ کے اہم اتحادی ملک قطر پر فضائی حملے کیے وہاں سوشل میڈیا پر پابندیوں کی آڑ میں نیپال میں حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اور بنگلہ
دیش کے طرز پر اہم شخصیات اور عمارات کو نشانہ بناکر تشدد کی بدترین مثالیں قائم کی گئیں ۔
اس تمام صورتحال میں ماہرین کا یہ تاثر مزید پختہ ہوگیا ہے کہ طاقتور دفاعی ادارے کسی ملک کی سلامتی کے لیے کتنے اہم ہوتے ہیں ۔ یہ بحث بھی پھر سے شروع ہوگئی کہ سوشل میڈیا کے غیر ذمے دارانہ استعمال کے کیا نتائج برآمد ہوسکتے ہیں اور یہ کہ نام نہاد اظہار رائے کی حدود و قیود کا از سر نو تعین ہونا چاہیے ورنہ بھیڑ نما گروپ اور لوگ اپنی ریاستوں کو نیپال کی طرح برباد کرکے رکھ سکتے ہیں ۔
تشدد کی بڑھتی عالمی لہر نے کمزور دفاع والے ممالک کے مستقبل کو سوالیہ نشان بناکر رکھ دیا ہے جبکہ قطر والے حملے سے اس تاثر کو بھی تقویت ملی ہے کہ کسی مضبوط اتحادی ملک پر اپنی سیکورٹی اور سلامتی کے لیے انحصار نہیں کیا جاسکتا ۔ تاہم جدید دور کے دوران تشدد کے بڑھتے واقعات نے جہاں ریاستی رٹ کی اہمیت کو مزید بڑھایا ہے وہاں بہت سے سماجی اور اخلاقی مسایل بھی پیدا کیے ہیں ۔
پاکستان میں بھی وقتاً فوقتاً کوشش کی جاتی رہی ہے کہ ریاست کے خلاف کارروائیوں اور مزاحمت کا آغاز کیا جائے اور اس ضمن اگر ایک طرف ملک کے دو صوبوں خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشتگردی کو فروغ دیا جارہا ہے اور پراکسیز پر پاکستان مخالف قوتوں کی جانب سے سرمایہ کاری ہورہی ہے تو دوسری جانب جمہوریت اور انسانی حقوق کی آڑ میں ریاست سے عام لوگوں کو متنفر کیا جائے ۔ اگر چہ ایک مضبوط دفاعی نظام کے باعث ان تمام منفی عوامل اور قوتوں کو اپنے عزائم کی تکمیل میں کامیابی نہیں ملتی اس کے باوجود یہ تمام کوششیں کسی نہ کسی صورت میں جاری ہیں اور اسی کے تسلسل میں ایک مخصوص پارٹی نے جہاں ایک طرف طالبان وغیرہ کی پھر سے وکالت شروع کردی ہے وہاں نیپال کے طرز پر پاکستان میں نوجوانوں کو بغاوت پر آمادہ کرنے کی کوشش بھی کی گئی جو کہ افسوسناک ہے اور ایسے عناصر کے خلاف مزید سخت اقدامات کی اشد ضرورت ہے ۔