Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Sunday, April 13, 2025

بنوں واقعے کے اصل حقائق ، پاکستانی وفد کا دورہ کابل اور مولانا فضل الرحمان پر پابندی

عقیل یوسفزئی
پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز ( پیپس) کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق سال 2024 کے دوران پاکستان پر ہونے والے دہشت گرد حملوں میں 850 سے زائد افراد شہید ہوئے جن میں اکثر سیکورٹی اہلکاروں کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ان حملوں اور جانی نقصانات 80 فیصد سے زیادہ نقصان خیبر پختونخوا اور بلوچستان کو اٹھانا پڑا ہے۔ ایک اور سیکورٹی رپورٹ کے مطابق خیبر کے قبائلی علاقوں اور جنوبی اضلاع کو سال 2021 کے بعد سیکیورٹی کی بدترین صورتحال سے دوچار ہونا پڑا اور یہ علاقے میدان جنگ بنے رہے کیونکہ افغانستان میں طالبان کے دوبار برسر اقتدار آنے کے بعد پاکستان مخالف دہشت گرد گروپوں کی تعداد ، سہولیات اور سرپرستی میں بے حد اضافے کا راستہ ہموار ہوا۔
اسی تناظر میں اگر دیکھا جائے تو رواں سال بھی خیبر کے یہ علاقے مسلسل حملوں کی زد میں رہے ۔ جن شہروں اور علاقوں میں بدترین نوعیت کے حملے ہوتے رہے ان میں بنوں سر فہرست رہے جہاں مسلسل کارروائیاں ہوتی رہیں۔ اس سلسلے میں گزشتہ روز بنوں کینٹ کے حساس ایریا میں ایک افسوسناک واقعہ اس وقت پیش آیا جب ریڈزون میں داخلے کی واضح ممانعت اور احکامات کے باوجود دو سواریوں پر مشتمل ایک موٹر سائیکل نو گو ایریا میں داخل ہوا۔ دستیاب سیکیورٹی اہلکاروں نے نہ صرف متعدد بار ان کو روکنے کے اشارے کیے بلکہ ان کو روکنے کےلئے ہوائی فائرنگ بھی کی مگر موٹر سائیکل سوار رفتار بڑھاتا گیا جس کے ردعمل میں سیکیورٹی اہلکاروں نے اسی ایریا میں متعدد دہشت گرد حملوں کے تناظر میں ان کو مشکوک قرار دیتے ہوئے فائرنگ کی جس کے نتیجے میں وقاص نامی ایک جوان جاں بحق ہوگیا جبکہ دوسرا محفوظ رہا جس نے ایک ویڈیو پیغام میں تمام کہانی سناتے ہوئے اعتراف کیا کہ وقاص مسلسل وارننگ کے باوجود نہیں رکا جس کے باعث یہ واقعہ ہوا۔ اس کے بعد متعلقہ اداروں نے فوری طور پر ایک تحقیقاتی رپورٹ کی تیاری کا حکم دیا تاہم بعض عناصر مشتعل ہوگئے اور بعض نے حسب معمول اس واقعے پر پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ شروع کردی جس سے بنوں سمیت پورے صوبے کا ماحول متاثر ہوا ۔ اس واقعے کو واقعی افسوسناک قرار دیا جاسکتا ہے تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ جوش کی بجائے ہوش ، زمہ داری اور احتیاط سے کام لیا جائے اور مخصوص سیکیورٹی چیلنجر کا ادراک کیا جائے۔
دوسری جانب جے یو آئی نے ایک رسمی بیان کے ذریعے کارکنوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ عید کے موقع پر پارٹی سربراہ مولانا فضل الرحمان کو مبارکباد دینے کے لیے ان کے آبائی گاؤں آنے سے سختی سے گریز کریں کیونکہ مولانا کو شدید نوعیت کا سیکیورٹی چیلنج اور خطرہ درپیش ہے ۔ اس پابندی کا احترام کرنا چاہیے کیونکہ مولانا کو واقعی سنگین خطرہ لاحق ہے اور ان کو دیگر کے علاوہ داعش خراسان سے بھی براہ راست خطرہ لاحق ہے۔
اس تمام منظر نامے میں نسبتاً اچھی خبر یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان کی عبوری حکومت کے درمیان کافی عرصے بعد اعلیٰ سطحی روابط بحال ہوگئے ہیں اور دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ آیندہ چند ہفتوں کے دوران دورے کریں گے۔ اس ضمن میں افغانستان کے لیے پاکستان کے نمایندہ خصوصی محمد صادق خان نے کابل کے تین روزہ دورے کے بعد اسلام آباد پہنچنے پر نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار سے ملاقات کرتے ہوئے ان کو بریفنگ دی جس کا خاصہ یہ ہے کہ افغانستان کی عبوری حکومت نے پاکستان کے بنیادی خدشات اور مطالبات کو درست قرار دیتے ہوئے یقین دلایا ہے کہ جاری کشیدگی کے خاتمے کے لیے درکار اقدامات پر مشاورت کرکے پاکستان کو آگاہ کیا جائے گا۔
ماضی کے تلخ تجربات اور واقعات سے قطع نظر آگے دونوں ممالک کے درمیان جاری کشیدگی میں کمی واقع ہوتی ہے اور یہ بہت مثبت پیشرفت ہوگی تاہم اس ضمن میں اگر خیبر پختونخوا کی حکومت سمیت صوبے کے دیگر پولیٹیکل اسٹیک ہولڈرز کو بھی اعتماد میں لیا جائے تو مزید بہتر نتائج برآمد ہوں گے۔
( 26 مارچ 2025 )

بنوں واقعے کے اصل حقائق ، پاکستانی وفد کا دورہ کابل اور مولانا فضل الرحمان پر پابندی

Shopping Basket