کرم کے حالات پھر کشیدہ

شورش زدہ علاقے کرم میں ایک بار پھر حالات کشیدہ ہوگئے ہیں اور لگ یہ رہا ہے کہ صوبائی حکومت نے معاملات کو درست کرنے کے لیے جو حکمت عملی اختیار کی تھی وہ ناکام ہوگئی ہے ۔ گزشتہ دو تین دنوں کے دوران بگن میں دو تین حملے کئے گئے جس کے نتیجے میں 5 سیکورٹی اہلکاروں سمیت سات آٹھ لوگ شہید ہوگئے جبکہ متعدد کو زخمی کردیا گیا ۔ بعض اطلاعات کے مطابق تقریباً ایک درجن افراد کو اغواء بھی کیا گیا ہے ۔ وزیر اعلیٰ کی زیر صدارت گزشتہ شام صوبائی کابینہ کا اجلاس منعقد ہوا جس میں چیف سیکرٹری اور اعلیٰ سول حکام بھی شریک ہوئے ۔ اجلاس میں کہا گیا کہ کرم میں چیک پوسٹوں کی حفاظت کے لیے 400 سیکورٹی اہلکار بھرتی کیے جائیں گے تاہم اسی نوعیت کا اعلان پہلے بھی کوئی دو تین بار کیا جاچکا ہے مگر عملاً کوئی بھرتی نہیں کی گئی اور نا ہی دیگر انتظامی اقدامات کیے گئے ۔ یہ ماننا پڑے گا کہ صوبائی حکومت کی رٹ کرم سمیت متعدد علاقوں میں ختم ہوگئی ہے مگر صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو بگڑتی صورتحال کا ادراک نہیں ہورہا اور سیکورٹی کے معاملات پاک فوج پر چھوڑے گئے ہیں ۔ عجیب بات یہ ہے کہ یہی صوبائی حکومت کالعدم ٹی ٹی پی اور افغان عبوری حکومت کے ساتھ تو مذاکرات کی تیاریوں میں مصروف عمل ہے مگر صوبائی حکمرانوں سے نہ تو کرم کے معاملات درست ہورہے ہیں اور نا ہی جنوبی اضلاع اور قبائلی علاقوں کی بدامنی کنٹرول ہورہی ہے ۔ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کا اپنا ضلع یعنی ڈیرہ اسماعیل خان بدترین حملوں اور بدامنی کی لپیٹ میں ہے مگر وہ عملاً ان تمام مسایل سے لاتعلق دکھائی دیتے ہیں اور اسی کا نتیجہ ہے کہ عوام کو شدید تشویش اور خوف کا سامنا ہے ۔ کرم کے کشیدگی نے پوری ریاست کی طاقت ، رٹ اور ساکھ کو سوالیہ نشان بنادیا ہے مگر کوئی بھی اس صورتحال کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہے ۔
گزشتہ روز پاک فوج نے جنوبی وزیرستان کے علاقے سراروغہ میں آپریشن کرتے ہوئے دو درجن سے زائد دہشت گردوں کو ہلاک کردیا اور فوج متعدد دیگر علاقوں میں بھی روزانہ کی بنیاد پر کارروائیوں میں مصروف عمل ہے مگر صوبائی ادارے اپنی انتظامی معاملات بہتر کرنے سے لاتعلق ہیں اور صوبے کی بیڈ گورننس نے مسائل میں تشویش ناک اضافے کا راستہ ہموار کردیا ہے ۔ اسی نااہلی یا بد انتظامی کا نتیجہ ہے کہ آج قبائلی علاقوں کے بعد جنوبی اضلاع پر مشتمل تمام بیلٹ شدید نوعیت کی بدامنی کی لپیٹ میں ہے اور عوام کے علاوہ جینوئن سیاسی جماعتوں کو بھی شدید قسم کے تحفظات کا سامنا ہے ۔ اسی تسلسل میں جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو گزشتہ روز تھرٹ الرٹ بھی جاری کیا گیا کہ ان کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں ۔ دیگر سیاسی قائدین کو بھی نقل وحرکت میں مشکلات درپیش ہیں ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ کرم اور بعض دیگر علاقوں میں ایمرجنسی سمیت دیگر سخت اقدامات کرتے ہوئے امن کے قیام کے لیے غیر مروجہ اقدامات کیے جائیں اور ریاستی رٹ کو ہر قیمت پر یقینی بنایا جائے ورنہ معاملات مزید خراب ہوں گے اور اس کی ذمہ داری صوبائی حکومت پر عائد ہوگی ۔
عقیل یوسفزئی

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket