عقیل یوسفزئی
ترکی کے شہر استنبول میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکراتی سیریز کا تیسرا اہم سیشن شروع ہے جس کی میزبانی حسب معمول ترکی اور قطر کررہے ہیں تاہم عین مذاکرات کی میز پر بیٹھنے سے چند گھنٹے قبل چمن اور سپین بولدک کی پاک افغان بارڈر پر دونوں ممالک کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوئیں جس کی ذمہ داری پاکستان کی وزارت خارجہ نے یہ کہہ کر افغانستان پر ڈال دی کہ ان جھڑپوں کی ابتداء اس نے کی جس کا ذمہ داری کے ساتھ بھرپور جواب دیا گیا ۔ وزیر اطلاعات عطاء تارڑ کے مطابق ان جھڑپوں کے باوجود پاکستان مذاکرات کی کامیابی کا خواہشمند ہے ۔
اس صورتحال پر اظہار خیال کرتے ہوئے سینئر صحافی شمیم شاہد نے کہا کہ تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں اور اس کی بنیاد پاکستان کے اس مطالبے پر رکھی گئی ہے کہ پاکستان اپنے پڑوسی ملک افغانستان سے کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف افغان عبوری حکومت سے ٹھوس کارروائی چاہتا ہے ۔
ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری اور وزیر دفاع خواجہ آصف نے پھر سے وارننگ دی ہے کہ اگر مذاکرات کا آپشن نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوا تو پاکستان کے ساتھ دوسرا ” آپشن” پہلے ہی سے موجود ہے ۔ ان کا واضح اشارہ افغانستان کے اندر جاکر کارروائیاں کرنے کی جانب تھا ۔
اسی دوران خیبرپختونخوا کے انسپکٹر جنرل پولیس ذوالفقار حمید نے کہا کہ صوبے کی پولیس کم نفری ، سہولیات کے فقدان اور درکار تربیت نہ ہونے کی باعث فوج کی مدد کے بغیر دہشت گردی سے نمٹنے کی طاقت نہیں رکھتی تاہم اسمگلنگ اور دیگر سرگرمیوں کے الزامات سے دوچار خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی نے گزشتہ روز ایک بار پھر کہا ہے کہ وہ فوجی کارروائیوں کو دہشت گردی کے خاتمے کا ذریعہ نہیں سمجھتے اس لیے جد پشاور میں ایک گرینڈ جرگہ بلایا جارہا ہے ۔
یہ صورتحال اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ پاکستان کی ریاست ایک جانب کھڑی ہے جبکہ دوسری جانب افغان حکومت ، پی ٹی آئی ، اس کی صوبائی حکومت اور کالعدم ٹی ٹی پی جیسی قوتیں مخالف سمت میں کھڑی ہیں ۔
پاکستان میں جہاں انسداد دہشت گردی اور کراس بارڈر ٹیررازم کے معاملے پر سخت ترین ریاستی ردعمل اور متوقع ” اقدامات” کی کوششیں جاری ہیں وہاں بیڈ گورننس ، کرپشن ، اداروں کی ری ڈیزائننگ اور بعض آئینی کمزوریوں کی درستگی کے لیے 27 ویں آئینی ترمیم لانے کی کوشش بھی آخری مراحل میں داخل ہوگئی ہے اور توقع کی جارہی ہے کہ آج بروز جمعہ وفاقی کابینہ اور اس کے بعد سینیٹ سے اس اہم ترین ترمیم کو پاس کرایا جائے اور اگلے مرحلے میں قومی اسمبلی میں اس کو پیش کیا جائے ۔ قومی اسمبلی میں حکمران اتحاد کو دو تہائی اکثریت حاصل ہے تاہم سینیٹ میں اسے تین چار ووٹوں کی کمی کا سامنا ہے جس کو پورا کرنا بظاہر کوئی مشکل ٹاسک دکھائی نہیں دیتا اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ اندرونی اور بیرونی سیکیورٹی اور استحکام کے لیے مجوزہ اقدامات کے تناظر میں آیندہ چند روز بہت اہم ہیں ۔


