خیبرپختونخوا , بلوچستان کے عوام کو خراج تحسین

خیبرپختونخوا , بلوچستان کے عوام کو خراج تحسین

جی ایچ کیو راولپنڈی میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی زیر صدارت ہونے والی کور کمانڈرز کانفرنس کے دوران ملک کو درپیش چیلنجز اور سیکورٹی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا اور مختلف امور کا جائزہ لیا گیا ۔ کانفرنس سے متعلق جاری کردہ آئی ایس پی آر کے اعلامیے کے مطابق دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شہید ہونے والوں کے علاوہ شہدائے ستمبر کو بھی خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کے لیے دعا کی گئی جبکہ کشمیر اور فلسطین کے عوام پر اسرائیل اور بھارت کی جانب سے کیے جانے والے مظالم کی بھرپور مذمت کی گئی ۔ کانفرنس کے شرکاء نے ادارہ جاتی احتساب کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے اس عزم کا کھل کر اظہار کیا کہ اس ضمن میں کسی کو استثنیٰ کی سہولت یا رعایت نہیں دی جائے گی ۔ کانفرنس میں قومی سائبر سکیورٹی کے تحفظ کو لازمی قرار دیتے ہوئے ملک خصوصاً خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ہونے والے دہشت گرد کارروائیوں اور کاؤنٹر ٹیررازم کے ریاستی اقدامات پر تفصیلی تبادلہ خیال کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ ملکی سلامتی اور عوام کے تحفظ کے لیے تمام درکار اقدامات کیے جائیں گے اور کارروائیوں کو دہشت گردی اور شرپسندی کے خاتمے تک جاری رکھا جائے گا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ حالیہ کور کمانڈر کانفرنس میں جن نکات اور ایشوز پر پاکستان کی اعلٰی عسکری قیادت کے واضح موقف کا اظہار کیا گیا اس سے قبل بھی تسلسل کے ساتھ یہی بیانیہ سامنے آتا رہا ہے اور اسی تناظر میں مختلف اقدامات اور فیصلے بھی کیے جاتے رہے ہیں ۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج کو درپیش چیلنجز کا ادراک بھی ہے اور اس ضمن میں وہ درکار اقدامات کر بھی رہی ہیں۔

دہشت گردی اور شرپسندی کے علاوہ سائبر سکیورٹی یا ڈیجیٹل دہشتگردی جیسے ایشوز پر لگ یہ رہا ہے کہ پاک فوج کسی قسم کی رعایت کا مظاہرہ کرنے کو تیار نہیں ہے اور ان معاملات پر زیرو ٹاولرنس کی پالیسی اختیار کی گئی ہے۔

بلوچستان میں 25 اور 26 اگست کو جو کچھ ہوا اس پر ملک بھر میں سخت ردعمل سامنے آتا رہا ہے۔ کوشش کی گئی کہ دہشت گردی کے کھلے عام واقعات کو حقوق کی جدوجہد کے بیانیے میں تبدیل کرکے جنگ کو جدوجہد کا نام دیا جائے تاہم اس میں دو آراء ہیں ہی نہیں کہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں پراکسیز کی صورت میں متعدد غیر ملکی طاقتیں پاکستان کو کمزور کرنے کی پالیسی پر گامزن ہیں اور بعض ممالک اس صورتحال کا کھلے عام ” کریڈٹ ” بھی لیتے دکھائی دیتے ہیں۔

بلاشبہ بلوچستان کو اس کے جایز حقوق ملنے چاہئیں اور اس بات کا بھی اعتراف کرنا چاہیے کہ سابق فاٹا کی طرح بلوچستان کو بھی ماضی میں امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا گیا تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مسائل کے حل کے لیے ریاست کی بنیادوں کو نشانہ بنایا جائے اور حقوق کی حصول یاجدوجہد کے نام پر منافرت پیدا کرنے کے علاوہ پراکسیز کا حصہ بن کر عام سویلینز کا قتل عام کیا جائے۔

دوسروں کے علاوہ امریکہ نے بھی گزشتہ روز بلوچستان میں ہونے والے واقعات کو کھلی دہشت گردی قرار دیتے ہوئے اس کی کھل کر مذمت کی اور کہا کہ امریکہ جاری دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پاکستان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہے۔

امریکی ترجمان میتھیو ملر نے پریس بریفنگ میں کہا کہ بلوچستان میں فورسز کے علاوہ بڑی تعداد میں عام شہریوں کو نشانہ بنایا گیا جس پر امریکہ نہ صرف تشویش کا اظہار کرتا ہے بلکہ اس کی مذمت کرتے ہوئے پاکستان کو ہر ممکن تعاون فراہم کرنے کا اعادہ بھی کرتا ہے۔

دوسری جانب وزیر داخلہ محسن نقوی اور وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے منگل کے روز اپنے دو الگ الگ بیانات میں واضح کیا کہ جو حلقے سیاسی انداز میں مذاکرات کے حامی ہیں ان کے ساتھ سنجیدگی کے ساتھ مذاکرات کئے جائیں گے اور حکومت مذاکرات کرنے کو ہر وقت تیار ہے تاہم دہشت گردوں کو سختی کے ساتھ کچلا جائے گا ۔ وزیر داخلہ نے ایک بار پھر واضح کیا کہ بلوچستان میں کوئی بڑا آپریشن نہیں کیا جارہا بلکہ ٹارگٹڈ کارروائیاں کی جائیں گی۔

اس تمام صورتحال کے تناظر میں ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت خود پہل کرکے ان سیاسی اور عوامی حلقوں کو ری انگیج کرکے تشدد پسندوں کے عزائم کو ناکام بنانے کا آغاز کریں جو کہ بلوچستان کے مسائل اور محرومیوں کو پرامن سیاسی اور جمہوری طریقے سے حل کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ایسا نہ ہونے کی صورت میں جہاں ریاست کے مسائل میں اضافہ ہوگا وہاں مزاحمت کاروں اور دہشت گرد گروپوں کی طاقت اور حمایت میں اضافے کا راستہ بھی ہموار ہوگا۔

عقیل یوسفزئی

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket