عقیل یوسفزئی
وزیر مملکت طلال چوہدری اور وزیر اعظم کے مشیر اختیار ولی خان نے لگی لپٹی بغیر خیبرپختونخوا کی حکومت اور تحریک انصاف پر دہشت گرد گروپوں کی ترجمانی اور سرپرستی کے سنگین الزامات لگائے ہیں اور کہا ہے کہ پی ٹی آئی کے وزرائے اعلیٰ ، وزراء اور ارکان اسمبلی کالعدم ٹی ٹی پی کو کروڑوں ، اربوں کا ” بھتہ ” دیتے رہے ہیں اور یہ کہ ان کی جانب سے دہشت گردی کے خاتمے کی بجائے اس کی سرپرستی کی جارہی ہے ۔ دوسری جانب باجوڑ میں جاری جرگہ پراسیس کے بارے میں سیکیورٹی اداروں کے شدید تحفظات سامنے آئے ہیں جس کے نتیجے میں مذاکراتی عمل میں ڈیڈ لاک کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے ۔
وزیر مملکت برائے داخلہ امور طلال چوہدری نے پارلیمنٹ میں خطاب اور میڈیا سے گفتگو میں کہا ہے کہ خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت اور پی ٹی آئی نہ صرف یہ کہ صوبے میں امن کے قیام میں بری طرح ناکام ہوگئی ہیں بلکہ ان کی جانب سے کالعدم ٹی ٹی پی کی سرپرستی کی جارہی ہے اور فریقین باہمی گٹھ جوڑ کے فارمولے پر عمل پیرا ہیں ۔ انہوں نے واضح کیا کہ خیبرپختونخوا میں کوئی نیا فوجی آپریشن نہیں کیا جارہا تاہم نیشنل ایکشن پلان کے تحت جہاں بھی دہشت گردی ہوگی وہاں کارروائی کی جائے گی اور ریاست کو کسی کا باپ ایسا کرنے سے نہیں روک سکتا ۔
دوسری جانب خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے لیگی رہنما اختیار ولی نے ایک ٹی وی انٹرویو میں تحریک انصاف کے ایک سینٹر کی موجودگی میں انکشاف کیا ہے کہ پی ٹی آئی نے اپنے بانی عمران خان کی ہدایت پر 13 طالبان کے ہزار خاندانوں کو افغانستان سے صوبے میں منتقل کیا جس کے نتائج آج سب بھگت رہے ہیں اور صوبائی حکومت ، خوف ، مصلحت یا نظریاتی ہم آہنگی کے باعث کالعدم ٹی ٹی ، دیگر کے خلاف اقدامات سے گریزاں ہے ۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ طالبان نے سابق وزیر اعلیٰ محمود خان سے ایک ارب روپے کا بھتہ مانگا تھا اور متعدد وزراء اور ارکان اسمبلی سے بھی پیسے مانگے گئے تھے ۔ اس وقت محمود خان کے بارے میں کہا گیا کہ انہوں نے ساٹھ ستر کروڑ دیکر جان چھڑائی ۔
اختیار ولی کے بقول جب ان اطلاعات کے تناظر میں انہوں نے رکن اسمبلی کی حیثیت سے فلور آف دی ہاؤس محمود خان سے تفصیلات یا وضاحت طلب کیں تو وہ کچھ بتایے بغیر ایوان سے نکل گئے ۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی موجوہ صوبائی حکومت اور مذکورہ پارٹی اب بھی طالبان کی سرپرستی کی اسی پالیسی پر عمل پیرا ہیں ایسے میں صوبے میں امن کے قیام کو کیسے ممکن بنایا جاسکتا ہے ۔
تجزیہ کار اور ماہرین وفاقی حکومت کے ان دو اہم عہدے داروں کے مذکورہ واضح موقف کو ریاست کے ممکنہ اقدامات کے تناظر میں اہم قرار دے رہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ آیندہ چند دنوں میں ” کچھ بڑا ” ہونے والا ہے ۔ اس ضمن میں مین سٹریم میڈیا پر سیکیورٹی ذرائع کے حوالے سے فیلش ہونے والی اس خبر کی مثال دی جاسکتی ہے جس میں باجوڑ کے جرگہ پراسیس کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس نوعیت کی کسی ڈیل کو برداشت نہیں کیا جائے گا اور ریاست کے اندر ایسی کوششیں ناکام بنائی جائیں گی ۔
شاید اسی ریاستی ردعمل کا نتیجہ ہے کہ باجوڑ امن جرگہ اور کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان جاری مذاکراتی عمل کے چھٹے دور یا نشست کا بھی کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا اور جرگہ کے سرکردہ رہنما صاحب زادہ ہارون الرشید نے جمعہ کے روز لوکل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ متحارب فریقین کے الگ الگ موقف کے باعث معاملات میں رکاوٹیں پیدا ہوگئی ہیں ۔ اس پس منظر میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے باجوڑ جرگہ کو مشاورت کے لیے ہفتہ کے روز پشاور طلب کیا ہے جہاں جرگہ ارکان سے مذاکراتی عمل کی تفصیلات معلوم کی جائیں گی ۔
یاد رہے کہ وزیر اعلیٰ کی زیر قیادت سی ایم ہاؤس میں بھی گزشتہ کئی ہفتوں کے دوران متعدد جرگے منعقد ہوئے اور مزید پایپ لاین میں ہیں تاہم ان تمام جرگوں کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا بلکہ ردعمل کے طور پر خیال کے مختلف علاقوں میں ہونے والے حملوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوا جس پر سیکیورٹی حکام ، بعض سیاسی اسٹیک ہولڈرز اور ماہرین نہ صرف یہ کہ تشویش کا اظہار کرتے دکھائی دیے بلکہ جاری جرگوں اور مجوزہ مذاکراتی کوششوں پر اعتراضات بھی کیے گئے ۔
( 9 اگست 2025 )
