بے قابو زبانیں
تحریک انصاف کے راہنماؤں نے گزشتہ جلسے میں جو زبان استعمال کی اگر اسے سند قبولیت بخشی جائے تو یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوگا۔ دنیا جہاں میں سیاست بھی ہوتی ہے اور سیاسی سرگرمیاں بھی ہوتی ہیں، مگر ہمارے ہاں ایک نام نہاد سیاسی جماعت نے سیاسی سرگرمیوں کو جو غلط رنگ دیا ہے، کوئی بعید نہیں کہ اس سے سیاسی سرگرمیاں مکروہ قرار دی جائیں اور شریف لوگ سیاسی جلسوں یا سرگرمیوں سے توبہ تائب ہوں۔
یہ کس انداز کی سیاست ہے، یہ کیسی سیاسی سرگرمیاں ہیں، اور یہ کیسی غلیظ زبان کا استعمال ہے جس کے شر سے صحافی محفوظ ہیں اور نہ ہی خواتین کی عزت کا پاس رکھا جارہا ہے؟ مخالف سیاسی راہنماؤں کے لیے پی ٹی آئی اور اس کے قائدین جو زبان استعمال کرتے آرہے ہیں، انہیں جن برے القابات سے نوازتے رہے ہیں اور ان کی نقلیں اتار کر ہتک آمیز انداز میں یاد کیا جاتا رہا ہے، اسے تو نہ چاہتے ہوئے بھی پاکستانی قوم اور سیاست نے قبول کر لیا ہے کہ چلیں ایک ایماندار، پاک، صاف و شفاف اور مقدس ہستی نے تمام چور سیاستدانوں کو بے نقاب کیا اور انہیں تضحیک آمیز انداز میں مخاطب کیا۔
مگر صحافیوں نے کس سیاستدان کا گھر اجاڑا ہے؟ کس کی پگڑی اچھالی ہے؟ کس کے گندم کے کھیت کو آگ لگائی ہے کہ انہیں بھی بھرے جلسے میں اس غلط بلکہ غلیظ انداز میں مخاطب کیا جائے؟ کیا علی امین گنڈا پور وغیرہ ایسے دودھ کے دھلے ہیں کہ وہ کسی کو بھی تضحیک کا نشانہ بنا لیتے ہیں؟ صحافیوں نے آخر گنڈا پور، اس کی پارٹی یا ان کے قائد کے ساتھ ایسا کون سا ظلم کیا ہے کہ جس سے مجبور ہو کر انہیں اس غلط انداز میں مخاطب کیا گیا؟
ان نام نہاد سیاسی راہنماؤں کی جلسوں سے خطابات کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے جیسے یہ جب اقتدار سے باہر ہوں تو سستا نشہ کرتے ہیں اور اسٹیج پر ہوش و حواس کھو بیٹھتے ہیں، اور جب انہیں اقتدار تک رسائی نصیب ہو تو مہنگا نشہ کرکے ہوش و حواس سے مزید بیگانے ہو جاتے ہیں۔ یہ سستے نشے میں بھی بہک جاتے ہیں اور مہنگا نشہ ان کی اوقات اور قابو سے باہر ہوتا ہے اس لیے ان کی زبانیں بے قابو ہو جاتی ہیں۔
ان کے قائد بھی عوامی اجتماعات میں اسی قسم کی زبان استعمال کرتے رہے، لوگوں پر کرپشن اور بدعنوانی کے بڑے بڑے الزامات لگاتے رہے مگر اپنی پونے چار سالہ حکومت میں کسی ایک الزام کو ثابت کرکے سزا نہ دے سکے۔ اگر کسی شخص نے کوئی جرم کیا ہے اور یہ اس پر ثابت ہو تو آپ اسے کسی بھی نام سے پکاریں، کوئی لقب دیں، حتیٰ کہ پی ٹی آئی روایت کے مطابق اسے گالیاں دیں یا چور قرار دیں، مگر جسے آپ چور قرار دے کر الزام ثابت ہونے سے پہلے ہی گالیوں سے نوازیں، تضحیک کریں اور سوشل میڈیا ٹرولنگ سے اس کی عزت خاک میں ملائیں، وہ کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کرے؟
اس نام نہاد سیاسی جماعت کی تمام سیاست کا دارومدار دوسروں پر بلاجواز تنقید، ان کی ہتک اور تضحیک پر ہے۔ اسلام آباد میں جلسے کے لیے انہیں اجازت ان شرائط پر دی گئی تھی کہ وہ ریاست، ریاستی اداروں اور قومی سلامتی سے متعلق افراد پر بلاجواز تنقید نہیں کریں گے، توہین آمیز زبان استعمال نہیں کریں گے اور نفرت انگیزی کو ہوا نہیں دیں گے، مگر انہوں نے اس جلسے میں ہٹ دھرمی اور دھڑلے سے وہی سب کچھ کیا جن سے انہیں منع کیا گیا تھا۔
صحافیوں کے خلاف گھٹیا، تھرڈ کلاس اور بازاری زبان استعمال کی گئی، اور اسی سے مشابہہ سلوک خواتین کے ساتھ بھی کیا گیا۔ یہ امر باعث تعجب ہے کہ پارٹی کی خواتین ممبران پارلیمنٹ اور چوٹی کی راہنماؤں کو بھی اس قسم کی بدقماشی سے کوئی تکلیف نہیں ہوئی، جس کا یہی مطلب لیا جا سکتا ہے کہ پی ٹی آئی خواتین راہنماؤں نے یہ بدترین الفاظ گوارا کر لیے ہیں، اور جب اس بڑے پیمانے پر ان الفاظ کو سند قبولیت بخشا گیا تو یہ یقیناً پاکستانی ثقافت اور سیاست کا حصہ بن جائیں گے۔
پی ٹی آئی خواتین راہنماتوبیچاریاں عہدوں اور پارلیمان کی ممبرشپ کے ہاتھوں بے بس ہیں، مگر خواتین تنظیموں کی جانب سے جو محض مذمت کی گئی یہ ناکافی ہے۔ خواتین حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں کو اس کے خلاف عدالتوں سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔
سیاسی لبادہ اوڑھے اوباشوں کے اس ٹولے کو سبق سکھانا ضروری ہو چکا ہے، ورنہ اس روش سے کسی کی عزت محفوظ نہیں رہے گی۔ پورے ملک میں اردو سمجھنے اور بولنے والا کوئی ایسا شخص نہیں جس نے اس بدزبانی کو جائز قرار دیا ہو سوائے عمران خان کے۔ اس بڑے پیمانے پر جو گفتگو قابل اعتراض ٹھہری اور جس نے بھی سنی، اس نے مذمت کی۔
قانون کی بھی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ اس پر اعلیٰ عدلیہ کو سوموٹو ایکشن لینے میں کوئی حرج نہیں۔ کوئی تو ان بدزبانوں کو بلا کر پوچھے کہ تم لوگوں نے سرعام، لائیو اور ڈنکے کی چوٹ پر ایک عوامی اجتماع سے خطاب میں یہ کیا اول فول بکا ہے؟ گزبھر لمبی جو زبانیں اس ایک جلسے میں استعمال کی گئی ہیں، یہ سیاست، کھیل، قانون اور اخلاقیات سب کی خلاف ورزی ہے۔ پھر کیوں نہ سپریم کورٹ ازخود نوٹس لے کر ان افراد پر تاحیات کسی بھی فورم پر تقریر کرنے کی پابندی لگا دے، کیونکہ یہ تقریر کے بنیادی اصول سے واقفیت نہیں رکھتے۔
ایسے لوگوں کو قوم سے خطاب کا کوئی حق نہیں۔ ملک کی غالب اکثریت ان کی یہ بدزبانی سننا نہیں چاہتی۔ برائے مہربانی ریاست کرے، فوج کرے، حکومت کرے یا عدلیہ کرے، قوم کو ان سیاسی مسخروں کے خطابات سے نجات دلائی جائے۔ کیا اس ملک میں ایسا کوئی ادارہ نہیں جو ان سے بازپرس کرسکے؟ اسی طرح صحافیوں کو بھی یہ باتیں دیگر کے لیے سمجھ کر نظرانداز نہیں کرنی چاہئے۔ اس سے قبل بھی پی ٹی آئی قائدین بارہا صحافیوں کی تذلیل کر چکے ہیں۔
حالیہ خطاب ملک کے ہر صحافی کے لیے ہے۔ اب صحافیوں کا فرض ہے کہ وہ ان کی رپورٹنگ بھی اسی انداز میں کریں جس انداز کو یہ سمجھتے ہیں۔ صحافیوں کی جانب سے صوبائی اسمبلی اجلاس کا بائیکاٹ احسن اقدام ہے، اسے جاری رکھا جائے۔ بے قابو زبانوں کو لگام دینے کا یہی طریقہ ہے کہ ان کی بدزبانی کو نشر اور شائع کرنے سے انکار کیا جائے۔
وصال محمد خان