سیاسی مقاصد کے لیے صوبے کے وسائل کا استعمال
پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے گذشتہ روز لاہور میں اجازت ملنے کے بعد کاہنہ روڈ کے کنارے مویشی منڈی میں جلسہ کیا گیا۔ اس بات سے قطع نظر کہ جلسہ میں کتنے لوگوں نے شرکت کی، وزیراعلی خیبرپختونخوا کیوں وقت پر نہ پہنچ سکیں یا کسی اور لیڈر نے کیا کہا۔ بات یہاں 1000ارب سے زائد مقروض اس صوبے کی ہونی چاہیے جہاں گذشتہ دو اور موجودہ حکومت پی ٹی آئی کی ہے۔
صوبے کے چیف ایگزیکٹیو یعنی وزیراعلیٰ کی سربراہی میں جو قافلہ لاہور کی جانب رواں دواں تھا، وہ سرکاری گاڑیوں اور سرکاری پروٹوکول پر مشتمل تھا۔ صوابی (انبار) انٹرچینج پر گذشتہ جلسہ کی طرح ریسکیو1122 کی گاڑیاں پہنچائی گئی تھیں بلکہ خبریں یہ بھی ہیں کہ انکے قافلے کے ہمراہ لاہور تک یہ گاڑیاں رواں دواں تھیں۔ یہ تمام گاڑیاں عوامی پیسوں اور عوامی ٹیکس پر چلنے والی گاڑیاں ہیں۔ ان کا پٹرول، چلانے والوں کی تنخواہیں یا مرمت کی ادائیگی عوام کے پیسوں سے کی جاتی ہے تو حکومت کو یہ اختیار کس نے دیا ہے کہ وہ صرف اپنے لیڈر کو خوش کرنے کیلئے عوامی پیسہ بہائیں؟
صوبے کی حالت یہ ہے کہ 20 ستمبر تک پشاور یونیورسٹی کے پنشنئرز کو تنخواہیں نہیں ملی تھیں۔ صوبے میں کوئی ترقیاتی کام شروع نہیں کیا جاسکا، نئے سکولوں کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت چلانے کا اشتہار جاری ہوچکا ہے۔
تین بار اس صوبے پر حکمرانی کرنیوالی جماعت نے صرف مالی سال 2024-25 کیلئے بین الاقوامی اداروں سے 12ارب 75 کروڑ40 لاکھ روپے قرض لینے کا فیصلہ کیا تھا۔
امن و امان کی صورتحال بھی سب کے سامنے ہیں کہ ایک طرف آئے روز دہشت گردی کے واقعات ہورہے ہیں تو دوسری جانب عوامی تحفظ حکومت کی ترجیح ہی نہیں کیونکہ انکی ترجیح صرف اپنے قیدی لیڈر کی رہائی اور وفاق کے خلاف بیان بازی کرنا ہے۔
گذشتہ روز رکن خیبرپختونخوا اسمبلی عدنان وزیر نے سنوپختونخوا سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ خیبرپختونخوا میں سی ٹی ڈی کو پنجاب اور سندھ کی طرح مؤثر نہیں کیا گیا حالانکہ اس حوالہ سے کابینہ کے فیصلے پڑے ہوئے ہیں کہ سی ٹی ڈی کو سندھ اور پنجاب کی طرح فعال کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت اگر اپنے صوبے کے وسائل صحیح معنوں میں استعمال نہیں کریں گے اور یہ وسائل جلسے جلوسوں میں استعمال ہوں گے تو اس صوبے کو امن کس طرح دیں گے؟ عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کس طرح اقدامات اٹھائے جائیں گے؟
اگر دیکھا جائے تو صوبائی پارلیمنٹ یعنی صوبائی اسمبلی کو بھی ایک مخصوص شخصیت کی تعریفوں اور انکے حق میں بیانات کیلئے استعمال کیا جارہا ہے حالانکہ ان کا کام ملک و قوم کے فلاح اور مفاد میں قانون سازی کرنا ہے۔
عقیل یوسفزئی