بعض حلقے شام کی بغاوت پر خوش کیوں؟

عرب ریجن میں روس ، چین اور ایران جیسے اہم ممالک کے حمایت یافتہ حکمران بشار الاسد کی حکومت ایک مذہبی گروپ ہیئت تحریر الشام نے ختم کردی ہے۔ بشار الاسد روس میں پناہ لینے پہنچ گئے ہیں جبکہ ان کی فوج افغانستان کی طرح یا تو زیر زمین چلی گئی ہے یا باغیوں کے ساتھ مل گئی ہے ۔ پاکستان میں اس صورتحال پر بحث جاری ہے تاہم تین حلقے یا قوتیں ایسی ہیں جو کہ اس بغاوت کو نہ صرف یہ کہ پاکستان کے تناظر دیکھ رہی ہیں بلکہ اس بغاوت پر خوشی کا اظہار بھی کرتی دکھائی دیتی ہیں ۔ اگر ایک طرف کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے رسمی طور پر اس بغاوت کا خیر مقدم کیا ہے تو دوسری جانب افغانستان کی حکمرانوں یعنی افغان طالبان نے بھی اس پیشرفت پر اظہار اطمینان کیا ہے ۔ پی ٹی آئی کے متعدد سوشل میڈیا ہینڈلرز سے بھی اس بغاوت کی حمایت میں مواد شیئر کیا گیا اور اس طرح کا تاثر پھر سے دینے کی کوشش کی گئی کہ پاکستان میں بھی شام اور بنگلہ دیش کی طرح کوئی مزاحمت یا بغاوت ہوسکتی ہے ۔ ٹی ٹی پی اور امارات اسلامیہ افغانستان کی حمایت تو سمجھ میں آتی ہے کہ جس گروپ نے شام میں بغاوت کی ہے وہ نہ صرف یہ کہ ماضی میں القاعدہ کا حصہ رہا ہے بلکہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور افغانستان کے طالبان کا حامی بھی رہا ہے اور فریقین ماضی میں ایک دوسرے کی معاونت بھی کرتے رہے ہیں تاہم پی ٹی آئی کی درپردہ حمایت اور خوشی سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ پی ٹی آئی خود کو پاکستان کی مقبول پارٹی قرار دیتی رہی ہے اور اس وقت بھی خیبرپختونخوا جیسے حساس صوبے میں یہ پارٹی برسرِ اقتدار ہے ۔ پی ٹی آئی کی اس طرز عمل سے کیا یہ مطلب لیا جائے کہ وہ بھی ملک میں شام یا افغانستان جیسی صورتحال یا بغاوت چاہتی ہے ؟ بظاہر تو اس سوال کا جواب ” ہاں ” میں ملتا دکھائی دیتا ہے یہ الگ بحث ہے کہ پاکستان مذکورہ ممالک سے کتنا مختلف ہے اور اس کے سیکورٹی اداروں کی فعالیت کا کیا رینج ہے۔

اس تمام صورتحال یا ذہنی ہم آہنگی کو اس تناظر میں بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ پی ٹی آئی اس سے قبل کالعدم ٹی ٹی پی اور افغان طالبان کو بھی سپورٹ کرتی رہی ہے اور ان تمام میں ریاست مخالف سرگرمیوں اور بیانیہ کے پس منظر میں متعدد اہم نکات مشترکہ ہیں ۔ بانی پی ٹی آئی نے وزیر اعظم ہوکر بھی افغانستان میں طالبان کے قبضے کا خیر مقدم کیا تھا اور یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ وہ اسامہ بن لادن کو بھی ہیرو قرار دیتے رہے ہیں ۔ موصوف کو پاکستان کے جمہوریت پسند حلقے طالبان خان کا نام دے چکے ہیں اور عالمی میڈیا میں بھی ان کو طالبان وغیرہ کا زبردست حامی سمجھا جاتا ہے ۔ یوں یہ کوئی نئی بات نہیں کہ فریقین کے درمیان کافی قربت اور ” ہم آہنگی” رہی ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس پارٹی کی نظریات اس نوعیت کی ہو وہ ایک جنگ زدہ صوبے یعنی خیبرپختونخوا کی سیکیورٹی صورتحال پر قابو پانے کی کوشش کیونکر کرسکتی ہے ؟ یہی وہ بنیادی مسئلہ ہے جس کے باعث سیکورٹی فورسز کی مسلسل کارروائیوں اور قربانیوں کے باوجود بدامنی سے متعلق مسائل حل نہیں ہوپارہے اور حالیہ موقف سے یہ بات پھر سے درست ثابت ہوگئی ہے کہ پاکستان کی منظم فوج کے خلاف ہونے والے پروپیگنڈے کا مقصد اس سے بڑھ کر شاید اور کچھ نہیں کہ پاکستان کی ریاست کے اہم ستونوں کو مشکوک اور متنازعہ بناکر یہاں مذکورہ ممالک جیسے حالات پیدا کیے جائیں ۔ بعض حلقے یہ سوال اٹھائے نظر آرہے ہیں کہ کیا پی ٹی آئی پاکستان میں طالبان وغیرہ کے کسی نظام کو برداشت کرسکتی ہے ؟ جہاں تک اس پارٹی کے بانی کی نظریات اور ہمدردیوں کا تعلق ہے تو اس اس میں کسی کو کوئی غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ جناب عمران خان واقعتاً اسی طرز سیاست اور طرز حکومت کے حامی تھے اور ہیں ۔ اسی نظریاتی ہم آہنگی کی بنیاد پر تو ان کے دور حکومت میں ہزاروں دہشت گردوں کو پاکستان واپس لاکر سہولتیں فراہم کی گئیں اور اسی ہی ہم آہنگی کا نتیجہ ہی ہے کہ گزشتہ روز خیبرپختونخوا اسمبلی میں ایک قرارداد منظور کی گئی جس میں کہا گیا کہ خیبرپختونخوا کے بعض علاقوں میں کسی مجوزہ فوجی کارروائی یا آپریشن کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

عمران خان اور ان کی صوبائی حکومت کی ان نظریات اور ہمدردیوں کی متعدد دیگر مثالیں دی جاسکتی ہیں تاہم تمام کا مختصر خلاصہ یہ ہے کہ اس پارٹی سے متعلق بعض حلقوں کی خوش فہمی اب ختم ہونی چاہیے کیونکہ پاکستان کو اندرونی انتشار سے دوچار کرنے کا عمرانی ایجنڈہ بلکل واضح ہے اور ان کو جب بھی موقع ملے گا یہ پاکستان کی سیکورٹی اور سلامتی کو داؤ پر لگانے سے گریز نہیں کریں گے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ شام میں القاعدہ سے منسلک ایک باغی گروپ کا اس طرح حکومت پر قبضہ کرنے سے پاکستان اور افغانستان سمیت متعدد دیگر ممالک میں موجود مذہبی انتہا پسند گروپوں کی طاقت اور اعتماد میں مزید اضافے کا راستہ ہموار ہوگا اور اگر یہ گروپ اقتدار پر گرفت مضبوط کرتا ہے تو مستقبل قریب میں کالعدم ٹی ٹی پی ، القاعدہ اور دیگر گروپوں کی سرپرستی میں مزید اضافہ واقع ہوگا کیونکہ ان تمام کے درمیان اسی طرح کی نظریاتی وابستگی قائم ہے جو کہ کالعدم ٹی ٹی پی اور افغان طالبان کے درمیان موجود تھی یا موجود ہے ۔ پاکستان کی پالیسی سازوں کو ان خطوط پر بھی سوچنا ہوگا کہ ماضی قریب میں پاکستان کے قبائلی علاقوں سے سینکڑوں دہشت گرد ایران کے راستے عراق اور شام میں لڑنے جاتے رہے ہیں اور جو کمانڈرز ان کو وہاں بھیجتے رہے ان میں سے اکثر کا نہ صرف یہ کہ ان علاقوں سے تعلق ہے بلکہ بعد میں متعدد نے القاعدہ اور داعش خراسان میں شمولیت بھی اختیار کی اس لیے مزید چیلنجز سامنے آسکتے ہیں۔

عقیل یوسفزئی

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket