امریکہ نے پاکستان کی ایسی 4 نجی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کردی ہیں جو کہ پاکستان کی میزائل ٹیکنالوجی کو ایک طریقہ کار کے مطابق سہولیات اور آلات فراہم کرتی آرہی ہیں ۔ اسی نوعیت کی پابندیاں ماضی قریب میں روس ، کوریا ، ایران اور چین پر بھی عاید ہوتی رہی ہیں اس لیے بہت سے تجزیہ کار اور ماہرین حالیہ امریکی فیصلے کو ماضی کی دیگر کارروائیوں کی طرح کوئی خاص مسئلہ قرار نہیں دے رہے تاہم ” امریکی سازش” کے بیانیہ والی پارٹی یعنی پی ٹی آئی نہ صرف اس اقدام کو اپنی جیت قرار دیتی ہے بلکہ حد تو یہ ہے کہ یہ پارٹی امریکہ کے ایک انتہائی متنازعہ کردار اور صدر ٹرمپ کے نامزد مشیر رچرڈ گرینیل کی اس ٹویٹ پر بھی شادیانے بجانے میں مصروف عمل ہے جو کہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی سے متعلق ہے ۔ مذکورہ شخص جہاں ہم جس پرستی کی وکالت کے لیے مشہور ہیں بلکہ ابھی تو ٹرمپ اور ان کو چارج لینے پورا ایک مہینہ پڑا ہوا ہے اس کے باوجود پی ٹی آئی آفیشلی اس متنازعہ کردار کی ٹویٹ کو بڑی فتح قرار دے رہی ہے جو کہ اس پارٹی کی پروپیگنڈا گردی کے علاوہ بے اصولی اور فرسٹریشن کا ایک ثبوت ہے ۔ اس پارٹی کو یہ شاید نہیں معلوم کہ سی این این سمیت متعدد دیگر امریکی میڈیا ادارے نہ صرف ٹرمپ اور عمران خان کا موازنہ کرکے دونوں کا مذاق اڑانے میں مصروف ہیں بلکہ اس قسم کی اطلاعات بھی زیر گردش ہیں کہ جب ٹرمپ چارج لیں گے تو جہاں ایک طرف ان کو اپنی اسٹیبلشمنٹ کی مزاحمت سے نمٹنا ہوگا بلکہ ان کو اسرائیل ، فلسطین ، شام اور یوکرین جیسے معاملات پر بھی ترجیحی بنیادوں پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی جبکہ ایران کا ایشو بھی شدت کے ساتھ سر پر کھڑا ہے ۔ ایسے میں وہ پاکستان کے ایک قید رہنما کی رہائی پر کیوں توجہ دیں گے اور کس لیے دیں گے یہ منطق سمجھ سے بالاتر ہے۔
پاکستان پر سال 1965 سے لیکر رواں سال تک امریکہ نے 12 دفعہ رسمی پابندیاں عائد کی ہیں جن میں پریسلر ترمیم بھی شامل رہا ہے اور 1998 کے ایٹمی تجربات کے بعد لگائی جانیوالی سخت پابندیاں بھی شامل رہی ہیں مگر پاکستان نہ صرف اپنے ایٹمی اور میزائل ٹیکنالوجی کو مسلسل چلاتا اور آپ ڈیٹ کرتا رہا بلکہ اس نے چین اور روس کی مدد سے اپنے ہتھیار بنانے شروع کر دیے اور متعدد ممالک پاکستان سے ہتھیار خرید بھی رہے ہیں ۔ پاکستان پر امریکہ نے جن برسوں کے دوران باقاعدہ پابندیاں لگائیں اس کا آغاز 1965 کی جنگ کے فوراً بعد ہوا ۔ دستیاب معلومات کے مطابق امریکہ نے اس تمام عرصے کے دوران پاکستان پر 1965, 1971, 1977, 1979, 1990 ، 1998، 1999 ، 2021 ، 2018 اور 2023 میں مختلف نوعیت کی پابندیاں عائد کیں ۔ اب کے بار تو محض سہولیات فراہم کرنے والی بعض کمپنیوں پر پابندی لگائی گئی ہے مگر بعض ریاست مخالف لوگوں نے اس ایشو کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے ۔ امریکہ کے دو اہم عہدے داروں جان فایز اور ویدانت پٹیل نے گزشتہ روز میڈیا بریفینگز میں اس معاملے پر بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان امریکہ کا اہم اتحادی اور شراکت دار ہے تاہم اس کی جدید اور وسیع میزائل ٹیکنالوجی سے خود امریکی مفادات کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے اس لیے امریکہ چاہتا ہے کہ اس مسئلے کا نوٹس لیا جائے ۔ ان کے بقول مذکورہ پابندیوں سے دونوں ممالک کے دیگر شعبوں میں جاری معاملات اور تعلقات بلکل متاثر نہیں ہوں گے ۔ دوسری جانب پاکستان نے رسمی طور پر دوٹوک الفاظ میں اس اقدام کو متعصبانہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے خطے میں طاقت کا توازن بگڑنے کی کوشش کی گئی جو کہ ناقابل قبول ہے۔
سنجیدہ ماہرین اس اقدام کو شام کے بعد ایران سے متعلق امریکہ کی جارحانہ پالیسی کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں کیونکہ ان کے بقول شام کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادی 2025 کے دوران اسرائیل کی مدد سے ایران میں حکومت کا تختہ الٹنے کا فیصلہ کر چکے ہیں اور اس تمام منظر نامے میں بھارت اور اسرائیل کے مشترکہ علاقائی الائنس کے پس منظر میں خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ پاکستان ایسی کسی صورت حال سے لاتعلق نہیں رہے گا ۔ پاکستان کو اس بات پر بھی تشویش لاحق ہے کہ امریکہ نے چین کی دشمنی میں پاکستان اور چین کے مشترکہ دشمن بھارت کی میزائل ٹیکنالوجی پر نہ صرف خاموشی اختیار کی ہوئی ہے بلکہ اس کو تکنیکی مدد بھی فراہم کررہا ہے ۔ ایسے میں ماہرین کی رائے ہے کہ پاکستان نہ صرف یہ کہ اپنی ٹیکنالوجی کو کسی دباؤ کے بغیر جاری آگے بڑھائے گا بلکہ چین بھی طاقت کا علاقائی توازن قائم رکھنے کے لیے پاکستان کی مدد کے لیے میدان میں اتر آئے گا۔
پاکستان دہشتگردی کے خلاف جنگ کے ایک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکا ہے اور ملک کے دو حساس صوبوں یعنی صوبہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں روزانہ کی بنیاد پر فوجی کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے ایسے میں یہ کسی قسم کے دباؤ میں آتا نہیں دکھائی دے رہا کیونکہ سی پیک ، گوادر اور متعدد دیگر پراجیکٹس کے لیے محفوظ پاکستان لازمی ہے اور غالباً اسی کا نتیجہ ہے کہ پاکستانی ریاست پی ٹی آئی کو عین اسی طرح ڈیل کرنے پر مجبور ہے جس طریقے سے ٹی ٹی پی اور بی ایل اے وغیرہ کو ڈیل کیا جارہا ہے ۔ پی ٹی آئی نے مذکورہ امریکی پالیسی اور متوقع مشیر کی ٹویٹ پر ” جشن ” مناکر ایک بار پھر ایک ایسے وقت میں اپنے پاؤں پر پھر سے کلہاڑی دے ماری ہے جبکہ یہ پارٹی مسلسل ناکامیوں کے باعث حکومت کے ساتھ مذاکرات کی کوششوں میں لگی ہوئی ہے اور اس کے خلاف گھیرا مزید تنگ ہونے لگا ہے۔
عقیل یوسفزئی