ناین الیون کے بعد پاکستان انڈر اٹیک کیوں؟
آج کے دن یعنی 11 ستمبر کو دنیا کے واحد سپر پاور امریکہ پر القاعدہ نے اس نوعیت کے حملے کئے جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ مسافر جہازوں کو ہائی جیک کرتے ہوئے امریکی انٹیلیجنس ایجنسیوں کا کباڑا کرکے دنیا کے سامنے امریکہ کے غرور کو توڑا گیا اور اس تمام پراسیس کو سامنے رکھتے ہوئے کہا گیا کہ اس کی پلاننگ افغانستان میں طالبان حکومت کے زیرِ انتظام رہنے والے اسامہ بن لادن نے کی ہے ۔ اس کے فوراً بعد نہ صرف افغانستان کے خلاف گھیرا تنگ کردیا گیا اور اس پر نیٹو کی زیر قیادت 20 سالہ طویل جنگ مسلط کی گئی بلکہ پاکستان کو بھی ایک انتہائی پیچیدہ نوعیت کی جنگ میں دھکیل دیا گیا جس کے نتائج اور اثرات پاکستان امریکی انخلاء اور طالبان کے دوبارہ برسر اقتدار آنے کے باوجود آج بھی بدترین قسم کی دہشتگردی کی شکل میں بھگت رہے ہیں۔
ناین الیون کے بعد امریکہ کی تمام توجہ فوجی کارروائیوں پر مرکوز رہی اور اس کے مسلط کردہ افغان حکمرانوں کو عوام کی تائید حاصل نہ ہوسکی جس کے بعد سال 2004 کے بعد طالبان اور ان کے اتحادی پھر سے متحد اور متحرک ہونے لگے اور انہوں نے لمبے عرصے تک کچھ اس انداز میں امریکہ اور نیٹو کی مزاحمت کی کہ اگست 2021 کو دوحہ ایگریمنٹ کے تحت ان بڑی طاقتوں کو ایک بار پھر افغانستان کو طالبان کے حوالے کرکے بھاگنا پڑا۔
ناین الیون کے حملوں میں جو لوگ شامل تھے ان میں ایک بھی پاکستانی یا افغانی نہیں تھا بلکہ سب کے سب عرب تھے مگر اس کے سنگین نتائج ان دو ممالک کو بھگتنے پڑے اور جب افغان طالبان کی حکومت دوبارہ قائم ہوئی تو افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ بوجوہ پاکستان منتقل ہوگئی اور اس وقت بلاشبہ پاکستان کے دو سرحدی صوبے یعنی خیبرپختونخوا اور بلوچستان دو طرفہ جنگ کی لپیٹ میں ہیں۔
امریکی دستاویزات کے مطابق اس بیس سالہ جنگ میں امریکہ اور نیٹو کے تقریباً 19000 فوجی اور دیگر اہلکار ہلاک اور 40000 زخمی ہوئے ۔ رپورٹس کے مطابق اس جنگ میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے 3 سے ساڑھے چار کھرب ڈالرز جھونک دیے ۔ دوسری جانب پاکستان میں ہونیوالی ہلاکتوں کی تعداد 80 ہزار سے زائد رہی جس میں فورسز کے تقریباً 18000 اہلکار اور افسران بھی شامل ہیں ۔ پاکستان کی معیشت اور معاشرت کو بھی بے پناہ نقصان پہنچا تاہم سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان کو عالمی برادری میں نہ صرف بدنام کیا گیا بلکہ اتنے نقصانات اور قربانیوں کے باوجود یہاں پھر بھی امن قائم نہیں ہوسکا اور اگست 2021 کے بعد پاکستانی ریاست دہشت گردی کے خلاف ایک اور فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔
—عقیل یوسفزئی