ابھی نہیں تو کھبی نہیں
عقیل یوسفزئی
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل ارشد شریف چوہدری نے 26 جون کو ایک تفصیلی پریس کانفرنس کے دوران اعلان کیا کہ پاک فوج نے 9 مئ کے پرتشدد اور افسوس ناک حملوں میں ڈسپلن کی خلاف ورزی کی پاداش میں تقریباً 15 اعلیٰ فوجی افسران کے خلاف کارروائی کی ہے اور مذید اقدامات جاری ہیں. انہوں نے اس تاثر یا پروپیگنڈا کو یکسر مسترد کردیا کہ ان حملوں میں کوئی ریاستی ادارہ ملوث تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس ان واقعات کی پلاننگ سے لیکر عملدرآمد تک کے تمام کرداروں کے ٹھوس شواہد موجود ہیں اور اسی بنیاد پر 102 افراد کے خلاف براہ راست حملوں کے جرم میں طریقہ کار کے مطابق ملٹری کورٹس میں کارروائیاں کی جائیں گی. انہوں نے کہا کہ جو عناصر ان حملوں میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کریں گے ان سے بھی سختی کے ساتھ نمٹا جائے گا کیونکہ اگر یہ روایت چل پڑی تو کل کو کوئی بھی ایسا گروپ پھر سے ایسا کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرے گا. ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس تمام عرصے میں سوشل میڈیا کا انتہائی منفی استعمال کیا گیا اور اداروں کے علاوہ مخالفین کے خلاف بھی زہریلا پروپیگنڈا کیا گیا. ایسے عناصر کے ساتھ بھی مزید کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی.
ڈی جی آئی ایس پی آر کی بریفنگ اور اہم فوجی افسران کے خلاف کارروائی کے اعلان سے یہ بات ثابت ہوئی کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ دوسرے تو ایک طرف اپنوں کو بھی معاف کرنے کے موڈ میں نہیں اور اعلیٰ فوجی حکام نہ تو کسی کے دباؤ میں آےء اور نہ ہی انہوں نے کسی کے ساتھ بھی رعایت برتنے کی کوئی پالیسی اختیار کی. اس کی بنیادی وجہ یہ بتائی گئی کہ عمران خان، ان کی پارٹی اور عالمی حامی پہلے سے یہ پلاننگ کر چکے تھے کہ پاکستان کی فوج اور ریاست کے خلاف مزاحمت اور بغاوت کی جائے گی. اگر معاملے کو نرم مزاجی سے ڈیل نہیں کیا جاتا اور خون خرابے کی نوبت آئی ہوتی تو ان عناصر کی پلاننگ ملک میں خانہ جنگی پیدا کرنے کی تھی. اور اس صورتحال میں تحریک طالبان پاکستان اور ایسے دیگر نے بھی اپنا حصہ ڈالنا تھا. بعض رپورٹس کے مطابق بعض مقامات پر تحریک طالبان پاکستان کے بعض گروپس نے اس توڑ پھوڑ میں حصہ لیا بھی. دوسری طرف بھارت کا میڈیا مسلسل یہ پروپیگنڈہ کرتا رہا کہ عمران خان ان سمیت پاکستان کے تمام مخالفین کا ہیرو ہیں کیونکہ ان کے بقول موصوف پاکستان کی طاقتور فوج پر چڑھ دوڑا تھا اور اس نے فوج کے ان افسران اور ان کے خاندانوں کو بھی بغاوت پر آمادہ کرنے کی پالیسی اپنائی تھی جن کو فوج نے عزت، مراعات اور شناخت دی تھی.
بھارتی میڈیا نے آن دی ریکارڈ یہ بیانیہ تشکیل دیا کہ ایک طرف عمران خان فوج کے خلاف بغاوت پر اتر آیا ہے تو دوسری طرف پشتون اور بلوچ ان کے بقول پاکستانی ریاست سے الگ ہونے کی تحریک چلارہے ہیں. یہاں تک کہا گیا کہ اس مہم جوئی میں تحریک طالبان پاکستان بھی اپنا کردار ادا کررہی ہے اور یہ کہ بھارت اور اسرائیل سمیت ایسے تمام ممالک کو عمران خان کے علاوہ ٹی ٹی پی کو بھی سپورٹ کرنا چاہیے تاکہ پاکستان نے بقول بھارتی تجزیہ کاروں کے جن لوگوں پر ماضی میں سرمایہ کاری کی تھی پاکستان کو انہی کے ہاتھوں شکست دی جائے.
بھارت کے سابق فوجی افسران نے کھل کر یہ بھی کہا کہ ہمیں ٹی ٹی پی اور پی ٹی آئی سمیت تمام ان تمام قوتوں کو سپورٹ کرنا چاہیے جو کہ پاکستان اور اس کی طاقتور فوج کو کمزور کرنے میدان میں اتر آئی ہیں.
دوسری جانب امریکا اور بعض دیگر ممالک کی لابیوں نے بھی اس تمام صورتحال میں کھل کر عمران خان کا ساتھ دیا اور ان کے میڈیا نے بھی وہی لائن اختیار کی جو کہ بھارتی میڈیا نے اختیار کرلی تھی. عجیب و غریب صورتحال اس وقت دیکھنے کو ملی کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے ڈی جی آئی ایس پی آر کی اتنی جامع اور دوٹوک پریس بریفنگ کے اگلے روز ملٹری کورٹس کے ایک کیس کی سماعت کے دوران جو ریمارکس دیئے ان میں حملوں میں ملوث گرفتار افراد کو رعایتیں دینے پر غیر معمولی زور دیا گیا تھا. شاید ان کو اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود بھ حملوں کی منصوبہ بندی، شدت، نقصان اور اثرات کا اندازہ نہیں تھا. وہ اس معاملے کو عمران خان کی طرح مذاق سمجھتے رہے اور یہی وجہ تھی کہ وہ لوگ بھی ملٹری کورٹس کی حمایت کرتے دکھائی دیے جو کہ لمبے عرصے تک سویلین کی ٹرایل کے خلاف تھے.
اس دوران عام سویلین عدالتوں کے علاوہ اینٹی ٹیررازم کورٹس نے بھی تھوک کے حساب سے گرفتار افراد کو ضمانتیں دینے کا ریکارڈ قائم کیا جس کے باعث سول حکومت اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا سخت نوٹس لینا لازمی ہوا.
پاکستان کو اس تمام صورتحال کے علاوہ تحریک طالبان پاکستان کے مسلسل حملوں اور پی ٹی ایم کے احتجاجی سرگرمیوں کا بھی سامنا رہا. دوسری طرف جون کے آخر میں بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی واشنگٹن کے دورے پر گئے جہاں انہوں نے صدر جو بائڈن کے ساتھ ایک لمبی ملاقات میں ان سے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کرایا جس میں پاکستان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ بعض کالعدم تنظیموں کے خلاف مزید کارروائیاں کریں. اس اعلامیہ کو ا پاکستان کے خلاف دونوں ممالک کی جانب سے چارج شیٹ قرار دیا گیا.
اتنے محاذوں پر بیک وقت اتنی “مہمات” پلان کرنا یا پاکستان کو ہمہ جہت قسم کی چیلنجز اور دباؤ سے دوچار کرنے کی مہم جوئی کو محض اتفاق نہیں قرار دیا گیا. تاہم پاکستان کی منظم اور طاقتور فوجی اداروں نے ان تمام چیلنجز سے نمٹنے کی جو حکمت عملی اختیار کی وہ بہت موثر ثابت ہوگئی اور یہی وجہ ہے کہ اسی انڈین میڈیا نے جون کے آخر میں یہ کہنا بھی شروع کیا کہ عمران خان کا سیاسی کیریئر ختم ہوچکا ہے اس لیے کہ بقول ان کے پاکستانی ریاست نے اپنی “طاقت” دکھاکر عمران خان سمیت ان کے حامیوں کی بہت سی خوش فہمیاں دور کردی ہیں. اس کے باوجود بھارتی میڈیا مسلسل یہ مشورے دیتا رہا کہ عمران خان اور ٹی ٹی پی وغیرہ پر انویسٹمنٹ جاری رکھی جائے. ایک سابق بھارتی افسر نے 25 جون کو یہاں تک کہا کہ عمران خان اقتدار سے محرومی کے بعد پاکستان کو جلانے اور پھونکنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اس لیے وہ بھارت کے لئے ایک اثاثے کی حیثیت رکھتا ہے.
اس تمام صورتحال نے وہ تمام کردار ایک ایک کرکے بے نقاب کردیئے جو کہ 9 مئ 2023 کے حملوں میں ملوث تھے اور غالباً اسی کا نتیجہ تھا کہ پاکستانی ریاست نے وہ والی لائن اختیار کی کہ اگر اب نہیں تو کھبی نہیں۔
