سال 2022 کی مجموعی صورتحال اور 2023 کے متوقع چیلنجز

سال 2022 پاکستان کی تاریخ کا اہم اور ہنگامہ خیز برس رہا. اس برس پاکستان کو متعدد چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا اور اسی پس منظر میں کہا جاسکتا ہے کہ 2023 بھی کافی مشکل سال ثابت ہوگا.۔ سال  2022کے دوران پاکستان میں وفاق میں تحریک عدم اعتماد کے زریعے عمران خان کی حکومت کا خاتمہ کرکے شہباز شریف کی قیادت میں پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت قائم ہوئی جس کو عمران خان نے امریکی سازش کہنا شروع کردیا اور وہ اپریل کے بعد مسلسل احتجاج کرتے پائے گئے. ملک بوجوہ نہ صرف سیاسی عدم استحکام سے دوچار رہا بلکہ ملکی معیشت بھی بری طرح متاثر ہوئی اور حالات کو اب بھی تسلی بخش نہیں قرار دیا جاسکتا۔ اسی برس نومبر میں فوج کی ٹاپ کمانڈ کی تبدیلی یا تعیناتی کا ایشو لمبے عرصے تک موضوع بحث رہا جس کے دوران عمران خان اور ان کی پارٹی نے اس اہم ادارے کو متنازعہ بنانے کی بھر پور کوشش کی تاہم یہ مسئلہ سینیارٹی کی بنیاد پر بخوبی حل کیا گیا اور نیء قیادت نے پیشہ ورانہ امور اور سیکیورٹی کو بنیادی مقصد قرار دے دیا۔

سال 2022 میں سیکورٹی کے حالات افغانستان کے بدلتے منظر نامے کے باعث بہت خراب رہے اور تحریک طالبان پاکستان کے علاوہ داعش اور بلوچ عسکریت پسندوں نے مسلسل حملے کئے جس کے نتیجے میں فورسز اور شہریوں کے سینکڑوں افراد شہید، زخمی ہوگئے تاہم فورسز نے سیاسی عدم استحکام کے باوجود نہ صرف درکار ردعمل دیا بلکہ عوام کے تحفظ کیلئے متعلقہ اقدامات بھی کئے.اس لہر کے دوران خیبر پختون خوا کو بطور خاص نشانہ بنایا گیا اور یہاں 100 سے زائد حملے کئے گئے. دوسرے نمبر پر بلوچستان رہا جہاں صورتحال کافی پیچیدہ رہی.اس برس ریاستی سطح پر تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مزاکراتی عمل کا باقاعدہ آغاز کیا گیا اور سیز فایر بھی ہوتی رہی تاہم 10 اگست کو سوات میں ایک واقعہ کے بعد ڈیڈ لاک پیدا ہوئی اور اس کے بعد یہ سلسلہ روک کر فورسز نے کارروائیوں کا آغاز کیا۔ دسمبر کے آخری ہفتے میں اعلیٰ عسکری اور سول قیادت نے حملوں کی روک تھام کو ریاستی رٹ کے زریعے یقینی بنانے پر اتفاق رائے کا اظہار کیا اور توقع کی جارہی ہے کہ 2023 اس حوالے سے فیصلہ کن سال ثابت ہوگا ۔

عوام اس تمام صورتحال میں ریاست کے ساتھ کھڑے رہے اور پختون خوا، بلوچستان اور سندھ میں درجنوں ریلیوں اور مظاہروں کا اہتمام کیا گیا جن کے دوران شدت پسندی اور دہشت گردی کو صاف الفاظ میں “نو” کہا گیا۔ سینئر صحافی علی اکبر کے مطابق 2022 میں دو اسباب کے باعث امن و امان کی صورتحال بدتر رہی. ایک تو یہ کہ افغانستان میں افغان طالبان برسرِ اقتدار آئے جس سے تحریک طالبان پاکستان نے نظریاتی اور تنظیمی قوت پکڑی اور دوسرا یہ کہ حکومت نے جس مذاکراتی عمل کا آغاز کیا وہ ابہام کا شکار تھا. ان کے مطابق اقتصادی مشکلات، سیلاب کی تباہ کاریوں اور سیاسی عدم استحکام جیسے عوامل کے باعث جہاں ملک کی معیشت متاثر ہوئی وہاں اس کا اثر سیکورٹی معاملات پر بھی پڑا اور نئے سال کے دوران یہی دو مسائل ریاست کے لیے چیلنج بنے رہیں گے۔ تجزیہ کار سید وقاص شاہ کے مطابق افغانستان کی تبدیلیاں ہم پر بری طرح اثر انداز ہوتی رہی ہیں جبکہ وفاقی اور پختون خوا حکومتوں کی محاذ آرائی نے بھی صوبے میں سیکیورٹی اور اقتصادی مسائل پیدا کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا. ان کے مطابق موجودہ عسکری قیادت سے توقع کی جارہی ہے کہ سیکیورٹی کے درپیش چیلنجز کو بنیادی اہداف میں شامل کیا جائے گا تاہم اس کے لیے لازمی ہے کہ سول حکومتیں اٹھائے جانے والے اقدامات کی اونرشپ لیں. اس کے علاوہ افغانستان، امریکہ اور چین کے ساتھ تعلقات کو بھی سال 2023 میں ازسر نو ترتیب دینے کی ضرورت ہوگی۔ سابق سیکریٹری داخلہ اور تجزیہ کار سید آختر علی شاہ کے مطابق انسداد دہشت گردی کی واضح اور دوٹوک پالیسی اپنانے کا وقت آگیا ہے اور اگر تمام اسٹیک ہولڈرز ایک پیج پر آجائیں تو صورتحال اور درپیش چیلنجز پر متعلقہ ادارے بہت موثر طریقے سے قابو پانے میں کامیاب ہو جائیں گے. ان کے مطابق پاکستان ماضی میں اس قسم کے حالات سے نمٹتا رہا ہے تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی اور معاشی استحکام اور گورننس پر بھی توجہ دی جائے۔ ماہرین کے مطابق 2023 امن و امان، اقتصادی معاملات اور خارجہ امور کے حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل سال ثابت ہوگا اور تمام ریاستی اداروں کے علاوہ سیاسی جماعتوں کو بھی اس حوالے سے ذمہ داری کا مظاہرہ کرکے موثر کردار ادا کرنا ہوگا۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket