پختون خوا میں اقلیتوں کے حقوق اور سکھوں پر حملے
عقیل یوسفزئی
مقبول عام تاثر یا پروپیگنڈے کے برعکس پشتون بیلٹ بالخصوص خیبر پختون خوا میں تاریخی طور پر اقلیتوں کو کھبی بھی امتیازی سلوک کا نشانہ نہیں بنایا گیا بلکہ سماجی سطح پر ان کو بہت عزت، احترام اور برابری کی بنیاد پر ڈیل کیا جاتا رہا ہے تاہم یہ امر قابل تشویش ہے کہ کچھ عرصہ سے صوبے میں سکھ برادری کو وقفے وقفے سے حملوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے جس پر ریاستی اداروں کے علاوہ سیاسی اور عوامی حلقوں کو بھی کافی تشویش لاحق ہوگئی ہے. اگر چہ ان حملوں کا مرکز صوبائی دارالحکومت پشاور ہی رہا ہے تاہم پورے صوبے میں صدیوں سے رہائش پذیر اقلیتوں میں خوف اور تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے جو کہ ایک فطری عمل ہے.
ایک سروے کے مطابق پختون خوا میں تقریباً 3 فی صد اقلیتیں رہائش پذیر ہیں. جن میں مسیحی، ہندو، سکھ سرفہرست ہیں تاہم متعدد دوسرے بھی صوبے میں صدیوں سے آباد ہیں اور ان کے اکثریتی آبادی یعنی مسلمانوں کے ساتھ نہ صرف مثالی تعلقات قائم رہے ہیں بلکہ صوبے کی سیاست، بیوروکریسی اور بزنس میں بھی ان کا نمایاں کردار رہا ہے. تعلیم، صحت اور بلدیاتی اداروں، شعبوں میں ان کی خدمات نہ صرف قابل ستائش رہی ہیں بلکہ عوامی سطح پر ان کے مثبت اور تعمیری کردار کا اعتراف بھی کیا جاتا ہے.
بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے اپنی مشہور زمانہ تصنیف “تاریخ عالم سے انتخاب” میں لکھا ہے کہ آزادی یا تقسیم ہند کے دوران جب نو آزاد دو ممالک یعنی پاکستان اور بھارت کے بعض علاقوں اور شہروں میں ہنگامے اور فسادات پھوٹ پڑے تو پشاور وہ واحد شہر تھا جس کے سیاسی اور عوامی حلقوں نے نہ صرف یہ کہ ہندوؤں اور سکھوں کو مکمل تحفظ فراہم کیا بلکہ ان کے کاروبار اور املاک کی چوکیداری بھی کی. ان کی ایک اور یادداشت “ڈسکوری آف انڈیا” میں بھی اس رویے کا بطور خاص ذکر کرکے مقامی آبادی کو خراج تحسین پیش کی گئی ہے.
اس میں کوئی شک نہیں کہ پہلے کی طرح صوبے کی اقلیتوں کو ایک مثالی سماجی ماحول میسر نہیں اور اب سکھ برادری کو ایک بڑے چیلنج کا سامنا ہے تاہم اس کے اسباب کو ہمیں صوبے کے مخصوص سیکیورٹی چیلنجز کے تناظر میں دیکھنا ہوگا.
صوبے میں مختلف طبقات کو سلسلہ وار حملوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اور ان واقعات کا براہ راست تعلق جاری دہشت گردی سے رہا ہے. کھبی مسلک کی بنیاد پر علماء کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو کھبی بعض سیاسی قوتوں پر حملے کئے جاتے ہیں. اسی طرح اگر ایک طرف شیعہ برادری نشانہ بنتی ہے تو دوسری طرف مختلف مسالک اور طبقوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے تاکہ معاشرے کو خوف میں مبتلا کیا جائے اور ریاست پر مختلف طبقات کے اعتماد کو نقصان پہنچایا جائے.حالیہ لہر کو بھی اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس قسم کے حملوں کو عالمی میڈیا اور فورمز پر غیر معمولی توجہ ملتی ہے اس لیے حملہ آوروں کے اس مقصد کو اس سے تقویت ملتی ہے کہ دنیا کو یہ تاثر دیا جائے کہ پاکستان میں اقلیتیں محفوظ نہیں ہیں.
انسپکٹر جنرل پولیس کے پی نے گزشتہ روز اپنی ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ سکھ برادری پر ہونے والے حملوں میں شدت پسند گروپ داعش خراسان کا ہاتھ ہے اور یہ کہ پولیس اور دیگر متعلقہ اداروں کے پاس اس ضمن میں بعض ٹھوس شواہد موجود ہیں. ان کے مطابق سکھ برادری سمیت تمام اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کئے جارہے ہیں اور ملزمان کی تلاش بھی جاری ہے. دوسری طرف وزیر اعلیٰ اعظم خان نے سکھ برادری کے قایدین اور متاثرہ خاندانوں کے نمائندوں سے بھی ایک خصوصی ملاقات کی جس کے دوران سیکورٹی سمیت بعض دیگر مسائل پر بھی ان کے ساتھ تفصیل کے ساتھ تبادلہ خیال کیا گیا اور اہم اقدامات کی یقین دہانی کرائی گئی. اس موقع پر برادری کے نمائندوں نے حکومت کے اقدامات پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اس عزم کا بھی کھل کر اظہار کیا کہ اس قسم کے واقعات اور حملوں سے پاکستان کے ساتھ ان کی محبت اور وابستگی کو کم یا کمزور نہیں کیا جاسکتا.
اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنی تمام اقلیتوں کو خصوصی طور پر تحفظ دینا اور ان کے تمام مذہبی اور سماجی حقوق کو یقینی بنانا حکومت کی ترجیحات میں سرفہرست ہونا چاہیے تاہم سب کو ان ہاتھوں کے عزائم کے مقاصد کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے جو کہ پاکستان کو عدم استحکام کے علاوہ اس کو عالمی دباؤ سے دوچار کرنا چاہتے ہیں.
سب کو پختہ یقین ہے کہ صوبے بلکہ پورے ملک کی ہماری اقلیتوں کی وطن پرستی کو ایسے حملوں سے کم نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ ہم سب کی طرح اس ملک کے اسٹیک ہولڈرز ہیں اور اس مٹی پر ان کا اتنا ہی حق ہے جتنا دوسروں کا بنتا ہے.
