عقیل یوسفزئی
یہ رویہ کسی طور مناسب نہیں ہے کہ سیاسی وابستگی اور اختلافات کی آڑ میں اپنے ملک یعنی پاکستان کی نہ صرف مخالفت کی جائے بلکہ اس کو ایک ناکام ریاست ثابت کرنے کی مہم بھی چلائی جائے. اس پر ستم یہ کہ معاشرے کو منافرت کا شکار بناکر تقسیم کرنے کی کوشش کی جائے. کوئی بھی ملک آئیڈیل نہیں ہوتا. نہ ہی مختلف ایشوز پر سب میں اتفاق رائے کا اظہار ممکن ہو تا ہے. بات اجتماعی مفادات اور ملکی ساکھ کی اہم سمجھی جاتی ہے اور اسی نکتہ پر ایک اجتماعی بیانیہ تشکیل دیا جاتا ہے.
آرمی چیف نے ایک اہم امریکی عہدیدار سے ٹیلی فونک رابطے کے دوران ملکی معیشت سے متعلق بات کی تو بعض لوگوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا اور دلیل اپنایء کہ یہ ان کے فرائض میں شامل نہیں ہیں حالانکہ اس سے پہلے کی حکومت میں جب بھی سابق حکمران معاملات بگاڑ تے رہے یہی آرمی چیف ان کو سنبھالتے رہے. اس وقت ان کو یہ بات یاد نہیں رہی کیونکہ یہ حکمرانی کے مزے لے رہے تھے.
سوال تو یہ بھی ہے کہ آرمی چیف نے یہ گفتگو اپنی ذات کے لیے کی یا ایک ایسے ملک کی معاشی بہتری کے لئے جس کو سیاسی لیڈروں اور ان کی پالیسیوں نے دیوالیہ بنانے کے قریب پہنچا دیا ہے. ممتاز اخبار فاینانشل ٹایمز کی حالیہ رپورٹ سب کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے تاہم المیہ یہ ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی اپنی مرضی اور پسند کی بات سننے کی عادت میں تلخ حقائق کا سامنا کرنے کا حوصلہ ہی نہیں رکھتے.
گزشتہ روز بلوچستان میں آرمی کے ایک ہیلی کاپٹر کو حادثہ پیش آیا تو پوری قوم رنجیدہ ہوگیء کیونکہ کور کمانڈر کویٹہ اور ان کے ساتھی سیر سپاٹا کرنے نہیں گیے تھے بلکہ وہ سیلاب زدگان کی مدد اور امدادی کارروائیوں کا جائزہ لینے گئے تھے. حد تو یہ ہے کہ بعض لوگوں اور ایک پارٹی کے میڈیا پرسنلز نے اس واقعے کو بھی سیاسی مخالفت کی بھینٹ چڑھا نے سے گریز نہیں کیا اور انتہائی نامناسب اور غیر متعلقہ تبصرے نام ونھاد سوشل میڈیا پر جاری کیے. یہ وہی فوج ہے جو نہ صرف اس قوم کو سیکورٹی دینے کے لیے گزشتہ 21 برسوں سے کسی وقفے کے بغیر جانوں کی قربانی دے رہی ہے بلکہ سیلاب اور دوسرے آفات کے دوران بھی دن رات اپنے وسائل بھی استعمال کرتی آرہی ہے.
جاری سیاسی بحران کے دوران تمام معاملات کو دستور کے مطابق حل کرنا سیاسی قوتوں اور متعلقہ جمہوری اداروں کی ذمہ داری ہے مگر اب بھی ایک اجتماعی رویہ یہ ہے کہ ہر کوئی ہر مسئلے کا حل فوج کے زریعے ڈھونڈنے کی کوشش میں ہے.
یہ رویہ نہ صرف ملک اور اس کے نظام، اداروں کے لیے خطرناک ہے بلکہ اس سے نفرتوں اور فاصلوں میں اضافے کا راستہ بھی ہموار ہورہا ہے اس لیے لازمی ہے کہ اس رویے کا راستہ روک دیا جائے اور جو عناصر جھوٹ، منافقت، منافرت اور پروپیگنڈہ کی بنیاد پر معاشرے کو مزید تقسیم کرنے کی کوشش میں مصروف عمل ہیں ان کا سختی کے ساتھ محاسبہ کیا جائے.