انضمام کے بعد سابقہ فاٹا کی سات ایجنسیاں اور چھ نیم قبائلی علاقے ایف آرز صوبہ خیبر پختونخوا کا حصہ بن چکے ہیں اور آئین کی رو سے دوسرے صوبائی محکموں کی طرح قبائلی علاقوں میں پولیس نظام کا بھی نفاذ کردیاگیا ہے. قانون کے مطابق پولیس اہلکاروں اور افسران کی بھرتی مروجہ صوبائی قواعد و ضوابط کے تحت ہوا کرتی ہے، جس کے مطابق پولیس کے ہر سپاہی کو این ٹی ایس و فزیکل ٹیسٹ اور تعلیم و عمر کی شرائط پوری کرنی ہوتی ہیں جبکہ اے ایس آئی یا اس سے اوپرکے عہدوں کے لئے پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کرنا لازمی ہوتا ہے، بندوبستی اضلاع میں پولیس اہلکار و افسران کا تبادلہ دوسرے اضلاع میں کسی خاص مدت کےلئے کیا جاتا ہے اور یہ روٹین کا عمل ہے، اگر اسی اصول کے تحت پولیس کا نظام ضم شدہ قبائیلی اضلاع میں عمل میں لایا جاتا تو شاید یہ اسموتھ ٹرانزیشن ہوتی اور انتظامی امور کی بجاآوری میں مشکلات پیش نہ آتیں، لیکن فاٹا انضمام کے معاملے میں ایسا نہ ہوا جس کی وجہ سے پولیس نظام کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ سابقہ فاٹا کوقیام پاکستان سے لیکر 2019 تک ایف سی آ ر کے تحت چلایا جاتا رہا جہاں امن وامان قائم رکھنے کی ذمہ داری پولیس کی بجائے خاصہ دار اور لیویز فورس کے پاس تھی، خاصہ دار فورس کی تاریخ کافی پرانی ہے، اس فورس کو قیام پاکستان سے پہلے 1892 میں انگریز سرکار نے قبائیلی علاقوں میں ریل پٹری کی حفاظت کے لئے بھرتی کی تھی جبکہ لیویز پیراملٹری فورس ہے جو کہ فاٹا اور پاٹا میں امن وامان برقرار رکھنے کے لئے بھرتی کی گئی تھی، خاصہ داروں کی نہ تو باقاعدہ پروفیشنل (پولیسنگ) ٹریننگ تھی اور نہ ہی ڈیوٹی کے معین اوقات کار، یہ ایک طرح کی ملازمت تھی جو کہ قبائلی علاقے کے خاندانوں میں تقسیم کی جاتی، جس کےلئے تعلیم فٹنس یا عمر کی کوئی شرط نہیں تھی، خاندان کا کوئی بھی فرد یونیفارم پہن کر اور بندوق اٹھاکر ڈیوٹی پر چلا جاتا تھا اور فکس تنخواہ وصول کرتا۔
فاٹا انضمام کے سلسلے میں مذاکرات کے دوران حکومت نے قبائیلی عوام کی یہ شرط مان لی کہ انہی خاصہ دار اور لیویز اہلکاروں کو پولیس میں ضم کیاجائے گا، انہیں پولیس کے برابر مراعات اور سینیارٹی کے لحاظ سے پولیس رینکس بھی دئیے جائیں گے۔ انضمام کے بعد صوبائی اسمبلی اور کابینہ نے خاصہ داروں اور لیویز فورس کو پولیس میں ضم کرنے کی منظوری دی، جس کے تحت 22109 خاصہ دار اور لیویزکی ملازمت پولیس کی ملازمت میں تبدیل کی گئی، جبکہ بقیہ 8300 کی بھی ملازمت پولیس نوکری میں تبدیل کرنے کا وعدہ کیا گیا ۔ درحقیقت انضمام سے قبل پولیٹیکل انتظامیہ نے تعلیمی قابلیت اور میرٹ کی بجائے من پسند افراد کو بیجز اوررینکس دیئے تھے جن کا خاندانی، سماجی یا سیاسی اثرورسوخ زیادہ تھا، اسی بنیاد پر خاصہ داروں کو صوبیدار میجر تک کے رینکس دئیے گئے تھے جو کہ اس وقت اور زمانے کے حالات کے مطابق مجبوری تھی، تاہم ان غلط فیصلوں سے اب انضمام کے بعد اس مسئلہ نے سر اٹھالیا جب ان صوبیدار میجروں کو ڈی ایس پی اور دوسرے رینکس دئیے گئے۔ جس پرقبائلی عوام کا موقف تھا کہ لیویز اور خاصہ دار فورس نے دہشت گردی کے بدترین دور میں ملک وقوم کےلئے قربانیاں دی ہیں اور یہ حقیقت حکومت نےبھی تسلیم کرلی ہےليکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں،کہ فورس کی اکثریت کم تعلیم یافتہ اور ان پڑھ ہے جس کی وجہ سے پولیسنگ اور تھانے کا نظام مشکلات کا شکار ہے۔ تھانوں میں محرر، اے ایس آئی، ایس ایچ اوز اور ڈی ایس پیز کی پوسٹؤں پر وہ افسران تعینات ہیں جو پہلے خاصہ دار فورس کا حصہ تھے ۔ لیکن ایف آئی آر کا اندراج، قانونی نکات کی روشنی میں مختلف نوعیت کے مقدمات میں دفعات لگانا ان کے بس کی بات نہیں، جس کی وجہ سے کیسز حل ہونے کی بجائے مزید پیچیدہ ہوتے رہتے ہیں، قبائیلی اضلاع میں تھانے سب ڈویژن کی سطح پر سرکاری اور نجی عمارتوں میں قائم کئے جاچکے ہیں۔ ایک سب ڈویژن کئی تحصیلوں پر مشتمل ہوتا ہے اس لحاظ سے ایک تھانے کی حدود میں وسیع وعریض رقبہ اور بہت بڑی ابادی آتی ہے جس کو کنٹرول کرنا بہت مشکل ہے۔ علاؤہ ازیں تقریباً تمام تھانوں کی عمارتیں عارضی طور یا پھرکرایہ پر لی گئی ہیں اور وہاں فرنیچر، سٹیشنری، لاک اپ او ردیگر سہولیات میسر نہیں۔ تفتیشی افسران نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر کیسز میں تفتیشی افسران پشاور یا دوسرے شہروں سے آ تے ہیں جس سے نہ صرف تفتیش ناقص ہونے کا احتمال ہوتا ہے بلکہ کیس بھی تاخیر کا شکارہوجاتی ہے ، پولیس نظام قبائلی عوام کےلئے نیا تجربہ ہے اور دوسرا یہ کہ انضمام مخالف قوتوں نے پولیس نظام کے خلاف اتنا شدید پروپیگنڈا کیا کہ قبائلی عوام کو اسے مکمل اپنانے میں کچھ وقت لگے گا۔ مقامی انتظامیہ کے حوالے سے بھی خبریں سامنے آئی ہیں کہ تنازعہ کی صورت میں فریقین کو ایف آئی آر درج کرنے سے ڈرایاجارہا ہے اور انہیں اپنے مسائل جرگوں کے ذریعے حل کرانے کی ترغیب دی جاتی ہے جس کی وجہ سے ان علاقوں میں ایف آئی آر درج کرنے کی شرح کم ہے، لیکن ان عوامل کے باوجود قبائیلی عوام اور خصوصاً لوئر مڈل کلاس کی جانب سے پولیس توسیع اور تھانوں کے قیام کا خیر مقدم کیا جارہا ہے جس کی وجہ ان میں تحچط کا احساس ہے، اس سے پہلے یہ طبقہ مجبور تھا کہ اپنے علاقے کے طاقتور ملک اور خان خوانین کی سفارش کروائیں۔ لیکن اب ان کے حقوق کو آئینی تحفظ حاصل ہے۔سابقہ فاٹا کے خاصہ دار فورس کی نوکری بحال کرنا اور ان کے خاندانوں کو روزگار کا وسیلہ فراہم کرنا یقیناً انسانی ہمدردی اور ریاستی ذمہ داری ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ نظام کو فول پروف اور کارامد بنانا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے اس لئے فوری طور پر قبائیلی اضلاع میں تھانوں اور چوکیوں کے لئے مستقل عمارتیں بنائی جائیں اور محرر سے اوپر تک کے عہدوں پر تجربہ کار اور پروفیشنل افسران تعینات کئے جائیں تاکہ عوام کا پولیس نظام پر اعتماد قائم ہوسکے اور قانون کی عملداری پورے صوبہ میں یکساں نافذ ہوسکے۔ اب چونکہ خاصہ دار اور لیویز ریگولر پولیس میں ضم ہوچکے ہیں اور وہ ایک ڈسپلن کے تحت وقت کی پابندی کریں گے اور آئین و قانون کے دائرہ کار میں رہ کر کام کریں گے اسی لئے انہیں ڈسپلن اور رول آف بزنس ماننے پڑیں گے، حکومت نے ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچنے والے اہلکاروں و عہدیداوں کو ریٹائر کرنے اور ان پڑھ افسران کی تنزلی کا فیصلہ کیا ہے جو کہ احسن اقدام ہے لیکن ان اصلاحات کے خلاف موجودہ اہلکار و افسران شور مچا رہے ہیں، ، قلم چھوڑ ہڑتال، روزنامچہ و ایف آئی آر اندراج سے بائیکاٹ کی دھمکیاں، اور احتجاج کر رہے ہیں لیکن حکومت کو اس معاملے پر سخت اقدام اٹھانا ہوگا تاکہ انضمام کے عمل کو کامیاب اور ریاستی عملداری کو یقینی بنائی جاسکے۔