کرونا وائرس نے پاکستان سمیت دنیا کے تقریبا 170ممالک کو اپنی لپیٹ اور خوف میں لے رکھا ہے جبکہ اس وبا سے اب تک عالمی معیشت کو تقریبا چار ٹریلین ڈالرز کا ناقابل یقین نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ دوسری طرف رپورٹس یہ ہے کہ اب تک اس وائرس سےدنیا میں 9000 کے لگ بھگ افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور خد شہ ہے کہ حلاکتوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوگا کیونکہ اب تک دنیا میں اس کی روک تھام کی ویکسین تیار نہیں ہوئی ہے۔ ایک امریکی رپورٹ کے مطابق کینسر اور اموات کا سلسلہ مئی کے مہینے تک جاری رہ سکتا ہے اور اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ موسم کی تبدیلی سے اسکا خاتمہ ہوگا ۔
پاکستان کے مختلف اداروں کے جاری کردہ تفصیلات کے مطابق 18 مارچ تک ملک کے مختلف علاقوں میں کرونا کیسز کی تعداد 250 سے 300 تک پہنچ گئی تھی۔ تاہم وزیراعظم عمران خان نے 17 مارچ کو اپنی تقریر میں خدشہ ظاہر کیا کہ یہ تعداد بڑھ سکتی ہے اور اس وبا کے پھیلنے کا یقینی خطرہ ہے۔ انہوں نے احتیاطی تدابیر اور حکومتی اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے ملک کی معاشی صورتحال کے تناظر میں کہا کہ ترقی یافتہ ممالک کے برعکس پاکستان میں شہروں کی لاک ڈاؤن اور معاشی سرگرمیوں پر پابندی جیسے فیصلے نہیں کیے جائیں گے۔
خیبر پختونخواہ میں اب تک کی جو صورتحال سامنے آئی ہے اس کے مطابق اب تک یہاں پر تقریبا60کیسز رپورٹ ہوئی ہے جن میں پندرہ میں وائرس کی موجودگی پائی گئی ہے۔ حکومتی ترجمانوں کے مطابق خیبر پختونخوا میں تفتان کے راستے ایران سے ڈی آئی خان وائرس داخل ہوا اور یہی علاقہ حساس قرار دیا جاچکا ہے۔ سندھ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جہاں کیسز کی تعداد180 ہے، پنجاب میں یہ تعداد 50 ، اسلام آباد میں 8 اور بلوچستان میں 20 بتائی جارہی ہے۔ تاہم غیر یقینی صورت حال کے تناظر میں یہ تعداد زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔
مشیر اطلاعات خیبرپختونخوا اجمل وزیر کے مطابق کرونا کی روک تھام کے لیے تمام ضروری اقدامات کئے گئے ہیں۔ تین چار قرنطینہ مراکز قائم کیے گئے اور مختلف ہسپتالوں میں آئسولیشن وارڈز مختص کیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ ابھی تک صوبے میں کرونا وائرس سے کوئی ہلاکت نہیں ہوئی ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ ایران سے 250 کے لگ بھگ مزید زائرین کی آمد متوقع ہے، جن کی اسکریننگ کی جائیگی ٹیسٹ ہوں گے اور ان کو حفاظتی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ وزیرصحت تیمور جھگڑا کے مطابق صوبے میں حالات کنٹرول میں ہے اور پشاور سمیت کسی بھی علاقے میں کرفیو لگانے کا فیصلہ زیرغور نہیں ہے۔ ان کے مطابق ہیلپ لائن اور حفاظتی اقدامات سے پاک فوج اور دیگر متعلقہ اداروں کے ساتھ کوآرڈینیشن کا فعال نظام موجود ہے اور عوام میں آگاہی اور ان کو اجتماعات میں شرکت سے روکنے کے لیے بھی مہم چلائی جارہی ہے۔
دوسری طرف متحدہ علماء کونسل نے ایک فتوٰی جاری کر دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ شریعت کی رو سے عوام نماز اور دیگر عبادات میں اجتماعات سے گریز کرکے متبادل طریقے استعمال کر سکتے ہیں، اور اس ضمن میں حکومت کی ہدایات پر عمل کرنے کے سلسلے میں اداروں سے تعاون کیا جائے۔
حکومت نےنہ صرف یہ کہ تعلیمی اداروں میں چھٹیوں کا اعلان کر رکھا ہے بلکہ سیاسی سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں پر پابندی بھی لگائی ہے اور عمر رسیدہ سرکاری ملازمین کو بھی چھٹی دے رکھی ہے تاکہ ان کی حفاظت اور صحت کو یقینی بنایا جا سکے ۔
اس کے علاوہ تمام ڈپٹی کمشنرز اور انتظامیہ کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ سماجی سرگرمیاں کم کرنے کے علاوہ ذخیرہ اندوزوں پر بھی کڑی نظر رکھیں تاکہ کاروباری حلقے جاری صورتحال کا ناجائز فائدہ نہ اٹھا سکے۔
کرونا وائرس کی روک تھام اور درکار سہولیات کی فراہمی میں ترقی یافتہ ممالک کو بھی مشکلات کا سامنا ہے وہ پاکستان کو بھی ایسی ہی صورتحال درپیش ہے۔ تاہم اس وبا سے چھٹکارا پانے کے لیے جہاں حکومتی اداروں کے ساتھ تعاون بہت ضروری ہے وہاں یہ بھی عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ غیر ضروری سرگرمیوں ،اجتماعات میں شرکت اور عام نقل و حرکت سے گریز کریں تاکہ جاری بحران کا نقصان کم رکھا جائے اور اس صورتحال سے نمٹا جا سکے۔