جس طرح بوجوہ دہشت گردی کی کوئی آسان اور جامع تشریح نہیں کی جاسکتی اسی طرح ثقافت کی تشریح مختلف مذاہب اور ممالک میں مختلف الفاظ میں کی جاتی ہے۔ قانون فطرت ہے کہ وقت بدلنے کے ساتھ ثقافت اور اس سے وابستہ دوسری چیزوں میں بھی تبدیلیاں آتی رہتی ہیں کیونکہ ہر دور میں ارتقائی عمل جاری رہتا ہے۔ گزشتہ دنوں بعض حلقوں کی جانب سے عالمی پشتون کلچر ڈے میڈیا کی حد تک منایا گیا تو محرکین نے پگڑی کو بطور سِمبل استعمال کیا جس پر کافی بحث بھی ہوئی۔ اپنی ثقافت خصوصا ً مادری زبان سے وابستگی اور محبت نہ صرف فطرتی عمل ہے بلکہ قابل تعریف بھی ہے تاہم بعض حلقے اس کو سیاسی مقاصد اور منافرت کے لیے استعمال کرتے ہیں اور یہ دوسری قوموں کا مذاق اڑانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
ایک زمانے میں جب شلوار قمیض کا استعمال پشتونوں اور بلوچوں تک محدود تھا تو یہ لباس یہ قومیں اپنی پہچان اور ملکیت سمجھ رہی تھیں تاہم اب اس کو ساؤتھ اور سینٹرل ایشیا کے مختلف ممالک میں بہت سی قومیں استعمال کر رہی ہیں ۔ پگڑی کا جہاں تک سوال ہے یہ پشتونوں میں بھی مقبول عام نہیں رہی اس کی اصل ملکیت اور پہچان سکھ برادری سے جڑی ہوئی ہے بلکہ ان کے بچے پیدائش کے چند برس بعد استعمال کرنا شروع کرتے ہیں اور مرتے دم تک وہ دنیا کے جس کونے میں ہوں استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح داڑھی کا استعمال بھی سکھوں کے علاوہ دنیا کی متعدد دوسری غیر مسلم قوموں میں بہت عام ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ لباس، زبان، ادب یا ثقافت کوئی منجمد چیز ہے درست نہیں ہے۔ ہر لباس اور ثقافت پر جغرافیہ یا موسم کا بہت اثر ہوتا ہے۔ کھانے پینے کا زیادہ تر تعلق بھی موسم اور جغرافیہ سے ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان اور افغانستان کے باشندےگوشت خوری اور بسیار خوری کے لیے مشہور ہیں یہ ان کے شوق کے علاوہ مجبوری بھی ہے کیونکہ اس کا براہ راست تعلق موسم اور جغرافیہ سے ہے۔ عربوں، وسطی ایشیائی باشندوں ، لاطینی امریکا ، افریقہ اور مشرقی یورپ میں گوشت کا اسی طرح استعمال ہوتا ہے جیسے ہم استعمال کرتے ہیں ۔ یہی معاملہ ثقافت کا بھی ہے پشتونوں میں ثقافت کا مطلب یا مفہوم اب محض موسیقی کی حد تک رہ گیا ہے حالانکہ ثقافت ایک علاقے ، معاشرے یا قوم کی مجموعی بو دو بوش کا نام ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ اس میں نئی چیزیں شامل ہوا کرتی ہیں۔
عجب صورتحال اس وقت بنتی ہے جب ہم سیاسی مقاصد کے لیے اپنے دلائل کے دوران ابہام کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر پشتون بیلٹ میں اتنی ترقی کے باوجود پردہ کرنا یا خواتین کا برقعہ کا استعمال اب بھی بہت عام ہے اور یہ ہماری روایات اور ثقافت کا حصہ ہے تاہم جب افغانستان میں حالیہ تبدیلی کے بعد اس ضمن میں بحث چل نکلی تو اس کو طالبان کے کھاتے میں ڈال دیا گیا حالانکہ پشتون خواتین کی اکثریت پاکستان کے علاوہ مغربی ممالک میں بھی پردہ کرنا پسند کرتی ہے اور اکثر آج کے دور میں بھی پرائے تو ایک طرف اپنے رشتہ داروں سے بھی پردہ کرتی ہیں۔ جو بعض حلقے پشتونوں کے نام پر سیاست کرتے آئے ہیں وہ باہر جاکر اپنے لباس اور زبان کو پسماندگی کا نشان سمجھتے ہیں اور اپنے بچوں کو یہ لوگ انگلش میڈیم اسکولزاور کالجز میں پڑھاتے ہیں مگر عام پشتونوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ مادری زبان میں پڑھیں۔ اسی طرز عمل کا نتیجہ ہے کہ عام لوگ ان کے مشورے پر عمل نہیں کرتے اور ان کے بیانیہ کو محض سیاسی سلوگن کا نام دیتے ہیں۔
افغانستان کے 80 فیصد پشتون حکمرانوں کی بیویوں اور بچوں کو اسکے باوجود پشتو بولنا نہیں آتی کہ ہمارے بعض حلقے ان کو اپنا آئیڈیل سمجھتے ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہاں کی ایلیٹ کلاس میں پشتو کو فارسی یا دَری کے مقابلے میں کم تر اور پسماندہ سمجھا جاتا ہے اس کے مقابلے میں پاکستان کے پشتون نہ صرف بہت پشتو پسند رہے ہیں بلکہ اس زبان کو ترقی دینے کے مراکز اور افراد بھی اس خطے میں عملی کام کرکے اس کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ حرف آخر یہ کہ بعض دوسرے معاملات کے علاوہ ثقافت اور ادب کے معاملے پر بھی ہمیں منافرت پھیلانے کی بجائے وسیع قلبی کا مظاہرہ کرکے لچک دکھانی چاہیے تاکہ ہم عصر جدید کے تقاضوں سے بھی ہم آہنگ ہوں۔