پاکستان بالخصوص خیبر پختونخوا میں سیکیورٹی کی مجموعی صورتحال ماضی کے مقابلے میں بہت بہتر ہے تاہم بعض سیاسی اور صحافتی حلقے افغانستان کے حالات کے تناظر میں یہ کہہ کر عوام کو مس گائیڈ کر رہے ہیں کہ صوبے کے قبائلی علاقہ جات میں دہشت گردپھر سرگرم عمل ہو گئے ہیں اور یہ کہ مستقبل میں یہ علاقے پھر سے دہشت گردی کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔ جو چند پارٹیاں یہ پروپیگنڈا کر رہی ہیں ان کے دور حکومت میں خیبر پختونخوا میدان جنگ میں تبدیل ہوگیا تھا اور اس صوبے کے عوام سال 2007 سے 2013 کے دوران بد امنی اور دہشت گردی کو ابھی تک نہیں بھولے ہیں۔
سن 2008 کے دوران جب صوبے میں اے این پی اور پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو ان کی بعض پالیسیوں کی وجہ سے دہشتگرد خیبرپختونخوا پر حملہ آور ہو گئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے دور حکومت میں صرف پشاور کو 48 بار خودکش حملوں اور دھماکوں کا نشانہ بنایا گیا جس میں سینکڑوں لوگ شہید ہو گئے۔ دوسری طرف اسی دور حکومت میں قبائلی علاقوں میں امریکہ نے سینکڑوں ڈرون حملے کیے تاہم ان پارٹیوں اور ان کے حامیوں کو وہ بدترین دور شاید یاد نہیں رہا۔موجودہ حکومت نے جہاں ایک طرف سابقہ فاٹا کو خیبرپختونخوا میں شامل کرکے اس کی تعمیر نو اور ترقی پر بھرپور توجہ دی وہاں فورسز نے موثر کاروائیاں کرکے اس بیلٹ کو شدت پسند تنظیموں سے صاف کردیا اور انٹلجنس بیسڈ آپریشنزاب بھی کسی وقفے کے بغیر جاری ہیں تاکہ ماضی کی طرح دہشت گردوں کو پھر سے یہاں قدم جمانے نہیں دیا جائے۔
ایک سیکیورٹی رپورٹ کے مطابق سال 2020 کے دوران پاکستان میں 2019 کے مقابلے میں حملوں کی شرح یا تعداد میں 47 فیصد کمی واقع ہوئی ۔ ہر نیا سال سکیورٹی کے لحاظ سے پہلے سال کے مقابلے میں بہتر ثابت ہوتا آیا ہے جبکہ پاکستان نے کراس بارڈر ٹیررازم کے خاتمے کے لیے دیگر اقدامات کے علاوہ افغانستان کے ساتھ بارڈر فینسنگ کا اقدام اٹھا کر بلوچستان اور خیبرپختونخوا کو محفوظ بنانےکا تاریخی مرحلہ بھی سر کر لیا ہے۔ اب کسی کے لیے بھی سر حد کراس کر کے ان علاقوں میں آنا یا یہاں ٹھکانے قائم کرنا آسان کام نہیں رہا ۔جہاں تک اس خدشے یا پروپروپیگنڈے کا تعلق ہے کہ افغانستان میں نظام یا حکومت کی تبدیلی سے پاکستان میں دہشت گردی کا آغاز ہوگا اس میں حقیقت اس لیے نہیں کہ سال 2001 کے حالات اور آج کے حالات میں بہت فرق ہے۔ 2001 کے بعد طالبان کا حکومت ختم کرکے افغانستان میں جنگ شروع کی گئی تھی جس سے پاکستان بری طرح متاثر ہوا جبکہ اب کے بار اس 20 سالہ جنگ کا عملی طور پر خاتمہ ہو چکا ہے اور خطے سے غیرملکی انخلاء کے بعد حالات نارمل ہوتے جا رہے ہیں۔ چند ایک حملوں یا واقعات کی بنیاد پر لوگوں میں خوف پھیلانے والے عناصر 2001 اور 2021 کے اس فرق کو سمجھ نہیں پا رہے اور نہ ہی ان کو پاکستان کی کاونٹر ٹیرارزم پالیسی یا اقدامات کا اندازہ ہے۔