پاکستان سمیت پوری دنیا کو بوجوہ عدم برداشت، اذیت پسندی اور عدم اطمینان پر مشتمل عوامل اور مسائل کا سامنا ہے۔ عالمی سطح پر گریٹ ڈپریشن کی تھیوری پر بحث چل نکلی ہے تاہم اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہر سطح پر ہر جگہ غلط ہی ہو رہا ہے اور مجموعی صورتحال کو ناقابل اصلاح قرار دیا جائے۔ مسائل پہلے کے مقابلے میں کم ہو رہے ہیں تاہم ابلاغیات اور اطلاعات کی فراہمی اور ترقی کے باعث اب مسائل پر بات زیادہ ہو رہی ہے اس لیے تاثر یہ لیا جاتا ہے کہ شاید حالات بہت ہی خراب ہیں اور یہ کہ جان بوجھ کر حالات کو درست نہیں کیا جا رہا۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ حالات کسی بھی ملک یا معاشرے میں آئیڈیل نہیں ہوا کرتے ۔ ہم نے کرونا بحران کے دوران بہت سے ترقی یافتہ ممالک اور اقوام کو پرتشدداور بے بس پایا اور یہ بھی دیکھا کہ بہت سے کمزور اور پسماندہ ممالک نے زیادہ بہتر طریقے سے معاملات کو سمجھا اور ڈیل کیا۔ درحقیقت غیر ضروری تنقید نہ صرف تیسری بلکہ ترقی یافتہ دنیا میں بھی بڑھ گئی ہے اور اس کی بنیادی وجہ شاید سوشل میڈیا تک بعض حلقوں اور لوگوں کی سستی اور آسان رسائی بھی ہے۔ کسی بھی واقعے کو بغیر تحقیق کے بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے رویے نے لوگوں کو اذیت پسند اور حساس بنا دیا ہے ۔ مثال کے طور پر حال ہی میں جب پاکستان کے اندر ایک مذہبی گروہ کے احتجاج کے دوران بعض پر تشدد واقعات اور منفی بیانات سامنے آئے تو بعض حلقوں نے معاملے کی سنگینی اور مذہبی حساسیت کی پرواہ کیے بغیر ریاست ،مذہب اور معاشرت پر غیر ضروری تنقید کا ایسا ماحول بنا دیا جیسے پاکستان خدانخواستہ کسی بڑے بحران سے دوچار ہو گیا ہو۔ حکومت کے علاوہ دوسرے فریق سے یقینی طور پر غلطیاں ہوئیں اور عام لوگوں کو تکلیف کا بھی سامنا رہا تاہم اس طریقہ سے بغض معاویہ میں پرانی ویڈیوز، بیانات اور تصاویر کو نام و نہاد سوشل میڈیا پر پھیلایا گیا اور ان واقعات کو مذہب اور ریاست کے خلاف جس طریقے سے استعمال کیا گیا وہ نامناسب تھا۔
اسی دوران پشاور میں عرصہ اٹھارہ برسوں کے بعد پہلی دفعہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا ایک اجلاس منعقد ہوا جس نے لمبے عرصے بعد ملک میں ایک ہی روز پہلا روزہ رکھنے کا تاریخی اعلان کیا اور علماء،کمیٹی، عوام کی جانب سے اس فیصلے کی ستائش کرکے اس کا قومی اور مذہبی یکجہتی کے تناظر میں خیر مقدم کیا گیا مگر اتنے اہم واقعے کااس انداز سے ذکر نہیں کیا گیا جتنی اس کی اہمیت تھی۔
رویت ہلال کمیٹی نے پاکستان کے ایک پرانے اور افسوسناک سلسلے کو ختم کرنے کی بنیاد رکھی مگر اس کی اس طریقے سے ستائش نہیں کی گئی جس کی ضرورت اور توقع تھی۔ اسی تناظر میں مقامی رویت ہلال کمیٹی اور مفتی شہاب الدین پوپلزئی کا بہت مثبت طرز عمل بھی دیکھنے کو ملا مگر بعض حلقوں نے پوپلزئی کو بھی نہیں بخشا اور ان کو مختلف قسم کے طعنے دیے جو کہ انتہائی افسوسناک طرز عمل تھا۔ اس سے ثابت ہوا کہ بعض حلقوں کو اچھے اقدامات بھی پسند نہیں آتے۔
دوسری طرف انہی دنوں جب سندھ ، پنجاب اور اسلام آباد میں مذہبی گروہ کا احتجاج اور مزاحمتی رویہ عروج پر تھا پشاور پختونخوا کی مجموعی صورت حال بہت مختلف اور بہتر رہی مگر اس رویہ کا بھی کسی نے نوٹس نہیں لیا مذکورہ مذہبی گروہ نے سال 2018 کے الیکشن میں خیبرپختونخوا میں تقریباً ایک درجن حلقوں سے پرامن الیکشن لڑا اور اس کے امیدواروں نے ہزاروں کی تعداد میں ہر حلقے سے ووٹ بھی حاصل کیے۔ تاہم دوران احتجاج پشاور دوسرے صوبوں اور شہروں کے مقابلے میں بہت پر سکون اور پرامن رہا اور کسی ناخوشگوار واقعے، کشیدگی، تصادم یا تشدد کی شکایت سامنے نہیں آئی۔ مذکورہ تحریک کے کارکنوں، علماء، انتظامیہ اور عوام نے مثبت طرز عمل کی مثال قائم کرتے ہوئے عملاً پورے ملک اور دنیا کو یہ پیغام دیا کہ وہ کتنے پرامن منظم اور خوش اخلاق لوگ ہیں۔
اس سے قبل بھی رواداری اور برداشت کے حوالے سے خیبرپختونخواہ ایک مثالی علاقہ رہا ہے تاہم بعض حلقوں نے اس کو اس کی اصل شناخت اور کریڈٹ سے جان بوجھ کر محروم رکھا حالانکہ ایسے رویوں کی نہ صرف ستائش بلکہ تقلید بھی ہونی چاہیے تھی۔ اس تمام تر تناظر میں ضرورت اس بات کی ہے کہ منفی رحجانات ، پروپیگنڈے،سیاسی پوائنٹ سکورنگ اور اذیت پسندی پرمشتمل رویوں سے گریز کیا جائے کیونکہ انتہا پسندی صرف بعض مذہبی حلقوں میں نہیں پائی جاتی بلکہ اب اس دوڑمیں بعض لبرل اور قوم پرست حلقے بھی شامل ہوگئے ہیں جن پر قابو پانا ضروری ہو گیا ہے کیوں کہ ہمارا ملک اور معاشرہ مزید تلخیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔