صوبائی حکومت، لانگ مارچ اور جاری کشیدگی
عقیل یوسفزئی
قائمقام گورنر مشتاق غنی نے کہا ہے کہ وہ ہر قیمت پر اپنے قائد عمران خان کے لانگ مارچ میں شرکت کریں گے جبکہ صوبائی وزیر کامران بنگش نے کہا ہے کہ وہ اور دیگر انصافی رہنما “سیلف ڈیفنس” کے لیے اسلحہ لیکر مارچ میں شریک ہوں گے. اس سے قبل سابق وفاقی وزیر امین اللہ گنڈاپور کی اسلحہ اور بندوں کی مبینہ فراہمی کی ایک آڈیو بھی لیک ہوئی تھی جس پر ان سمیت کسی بھی رہنما نے تردیدی بیان جاری نہیں کیا بلکہ اس کا دفاع کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ کو کھلے عام دھمکیاں دی گئیں.
یہ رویہ اور صورت حال کسی طور قابل برداشت نہیں کہلایا جاسکتا کیونکہ چار وفاقی یونٹوں میں تحریک انصاف اور ان کے اتحادیوں کی حکومتیں ہیں اور اگر یہ حکومتیں ایک ایسے مزاحمتی مارچ کا حصہ بنتی ہیں جس کا مقصد نظام کو سمیٹنے کے علاوہ اہم اداروں کو مشکوک اور متنازعہ بنانا ہے تو اس کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے.
عمران خان اس سے قبل خیبر پختون خوا کے سرکاری وسائل اور ادارے کھلے عام اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں اور ہیلی کاپٹر سمیت متعدد کیسز عدالتوں میں بھی گئے مگر کسی سطح پر بھی ان کا راستہ نہیں روکا جا سکا. حالانکہ یہ عمل نہ صرف اخلاقی طور پر بلکہ قانونی طور پر بھی جائز قرار نہیں دیا جاسکتا.
اب بھی وہ پنجاب اور پختون خوا حکومتوں اور ان کے وسائل کو استعمال کرنے کی راہ پر گامزن ہیں اور صوبے کے حکمران کھل کر لانگ مارچ کی تیاریاں کررہے ہیں. ساتھ میں وفاقی حکومت اور متعلقہ اہم اداروں کو دھمکیاں دینے اور ان کے خلاف یکطرفہ پروپیگنڈا کا کام بھی جاری ہے.
المیہ یہ ہے کہ پی ڈی ایم نہ صرف ضمنی انتخابات میں عمران خان کے خلاف متحد ہو کر نہیں لڑی بلکہ اس کی کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ چھ ماہ گزرنے کے باوجود یہ اتحاد پختون خوا میں اپنا گورنر مقرر کرنے میں بھی کامیاب نہ ہوسکا. ورنہ مشتاق غنی کو یہ سب کچھ کہنے کا موقع ہی نہیں ملتا.
لانگ مارچ نہ صرف مختلف افراد کی اموات کے باعث خونی مارچ میں تبدیل ہوکر رہ گیا ہے بلکہ عمران خان بوجوہ اس کو مذید طول دینے کی کوشش پر بھی عمل پیرا ہیں. لگ یہ رہا ہے کہ کراوڈ بنانے کے لیے ان کو حسبِ سابق پھر سے پختون خوا پر انحصار کرنا پڑے گا اور اس کے نتیجے میں ایک ایسے جنگ زدہ صوبے کے افرادی، انتظامی اور مالی وسائل استعمال کرنا پڑیں گے جس کو پہلے ہی سے بدترین اقتصادی بحران کا سامنا ہے.