صوبہ پختونخوا کی سکیورٹی صورتحال اطمینان بخش ہے

آئی جی پی پختونخوا معظم جاہ انصاری نے کہا ہے کہ پشاور اور قبائلی اضلاع میں حالیہ دہشت گرد واقعات کے باوجود حالات کنٹرول میں ہیں اور کوشش کی جارہی ہے کہ قبائلی اضلاع کے لیے اعلان کردہ سول فورس کی ٹریننگ سمیت دوسری سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے تاکہ پاکستان آرمی کی توجہ سرحدی معاملات پر مرکوز ہو۔  ایک خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہا ہے کہ حالیہ دہشت گرد حملوں پر نہ صرف کڑی نظر رکھ کر کالعدم  تنظیموں اور گروپوں کی مانیٹرنگ کی جا رہی ہے بلکہ سی ٹی ڈی پولیس اور آرمڈ فورسز ان کی سرگرمیوں کے تناظر میں ضروری اقدامات اور کاروائیاں بھی کر رہی ہیں۔

 آئی جی کے پی نے بتایا کہ حالیہ حملوں میں ٹی ٹی پی کے علاوہ داعش خراسان کی موجودگی کے بھی ثبوت ملے ہیں اور وہ ذاتی طور پر داعش خراسان کو ٹی ٹی پی سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فورسز نے اپنی حکمت عملی تبدیل کر لی ہے اور روزانہ کی بنیاد پر کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔  اس بات کا خدشہ بہت کم ہے کہ ماضی جیسے حالات یا بدامنی پیدا ہو۔

 ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ امن اور سکیورٹی کے لئے تقریباً 30 ہزار سیکورٹی اہلکاروں کی ٹریننگ کا عمل تیزی سے جاری ہے جبکہ درجنوں پولیس اسٹیشن بھی تعمیر کیے جا رہے ہے اور نئی بھرتیاں بھی کی جائینگی تاہم اس پورے عمل کو مکمل ہونے میں ڈیڑھ دو سال کا عرصہ لگے گا اس کے باوجود ضم اضلاع میں پولیس اور دیگر سول اداروں کی موجودگی اور کارکردگی کو سراہا جا رہا ہے اور ماضی کے مقابلے میں سیکورٹی کے حالات بہت بہتر اور تسلی بخش ہیں۔  انہوں نے کہا کہ قبائلی اضلاع کے نوجوانوں کو تعلیم اور روزگار کی سہولت دی جارہی ہے جبکہ سرحد پر باڑ لگانے کے پالیسی کے بھی مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں۔

 دو طرفہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے ممتاز صحافی عارف یوسفزئی نے کہا کہ بعض سیاسی اور صحافتی حلقے بعض واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں تاکہ یہ تاثر دیا جا سکے کہ صوبے خصوصاً قبائلی اضلاع میں حالات خراب ہورہے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ خطہ 20 برسوں سے حالت جنگ میں رہا ہے افغان طالبان کو حکومت سنبھالے تین مہینے ہو گئے ہیں اس دوران افغانستان اور پاکستان میں دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ سامنے نہیں آیا ہے جبکہ افغان حکومت نے داعش کا راستہ اس کے باوجود روک  رکھا ہے کہ افغان طالبان کو متعدد دوسرے چیلنجز کا بھی سامنا ہے۔ عارف  یوسفزئی کے مطابق یہ توقع رکھنا زمینی حقائق کو مسخ کرنے والی بات ہو گی کہ بیس تیس برسوں کی جنگ اور پراکسیز کا چند مہینوں میں خاتمہ ہو اس کے لیے اقدامات اور وقت درکار ہے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket