یہ بات بہت افسوسناک بلکہ خطرناک ہے کہ بعض واقعات کا بہانہ اور جواز بنا کر بعض حلقے عوام کو اشتعال اور غصہ دلا کر اپنے گروہی اور سیاسی مفادات حاصل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ اسی رویہ کا نتیجہ ہے کہ عوام کسی بھی واقعے کی آڑ میں سڑکوں پر نکل کر نہ صرف یہ کہ بد امنی اور تشدد کی راہ ہموار کرتے ہیں بلکہ جب حالات پر قابو پانے کے لیے قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آ جاتے ہیں تو بعض اوقات اس سے کشیدگی اور تصادم کی صورتحال بھی پیدا ہو جاتی ہے۔
مذہبی اور سیاسی قائدین کی ایک بڑی ذمہ داری یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ کشیدگی کے دوران عوام کو پرامن اور پرسکون رکھنے کی کوشش کریں مگر یہاں اس کے بالکل برعکس ہورہا ہے اور مسلسل کوشش کی جا رہی ہے کہ سیاسی اور مسلکی مخالفت کی آڑ میں سادہ لوح اور جذباتی کارکنوں اور عوام کو مزید غصہ دلایا جائے۔
گزشتہ چند برسوں سے کوشش کی جارہی ہے کہ ایک حساس مذہبی مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا کر ملک میں امن و امان اور کشیدگی کا مسئلہ بنایا جائے حالانکہ جس مطالبہ کو لے کر بعض لوگوں نے تشدد اور مزاحمت کا راستہ اپنایا اُس مسئلہ پر حکومت پاکستان اور 95 فیصد شہریوں کا موقف بالکل واضح ہے اور حکومت عالمی فورمز پر اس مسئلہ کو اٹھاتی رہی ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ کسی کو بھی تشدد یا ریاست مخالف سرگرمیوں کی اجازت نہیں ہونی چاہیے تاہم المیہ یہ ہے کہ بعض حلقے ماضی کی کہانیاں اور فیصلے لے کر بدگمانی پیدا کرنے پر عمل پیرا اور شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ بعض سنجیدہ حلقے دوسرے اقدامات کے علاوہ اب سوشل میڈیا کو لگام دینے کا مطالبہ بھی کرنے لگے ہیں کیونکہ یہ پروپیگنڈے کے علاوہ نفرت پھیلانے کا بڑا ذریعہ بن گیا ہے۔
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے گزشتہ روز ایک مذہبی گروہ کی سرگرمیوں اور پابندی سے متعلق منعقدہ پریس بریفنگ میں قبائلی علاقہ جات کی ایک مزاحمتی تنظیم کی مثال دی تو سینکڑوں افراد نے مولانا کو کچھ اس طریقے سے ہاتھوں ہاتھ لیا جیسے انہوں نے کوئی بڑا گناہ اور جرم کیا ہو حالانکہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے متفقہ فیصلے اور مشترکہ سیاسی، ریاستی بیانیہ کے مطابق ہر وہ شخص اور گروہ قابل گرفت ہے جو کہ بد اعتمادی، تشدد اور نفرت پھیلانے کا سبب یا ذریعہ بنے۔ غیر ضروری طور پر تنقید اور عوام کو غصہ دلانے کا رویہ معاشرے کو تشدد پر اُکسانے کا سبب بن رہا ہے۔ اس لیے ایسے عناصر کے خلاف نتائج اور مخالفت کی پرواہ کیے بغیر سخت اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ ریاستی اداروں اور معتدل مزاج حلقوں کو چاہیے کہ وہ ملک کو اس صورتحال سے نکالنے کے لیے اپنا متحرک اور مثبت کردار ادا کریں۔