لیک شدہ ویڈیوکی اصل کہانی اورپس منظر

دو ہزار اٹھارہ (2018)  کے دوران سینٹ کے الیکشن میں خیبر پختونخواہ اسمبلی کے تحریک انصاف کے تقریبا” دو درجن ممبران نے اپنے ووٹ فروخت کرکے ایک شرمناک مثال قائم کی تو پارٹی سربراہ عمران خان نے ان بیس ممبران اسمبلی کو پارٹی سے فارغ کر دیا ان کے علاوہ تین دیگرپارٹیوں کےچند ممبران نے بھی ووٹ فروخت کیئےمگروہ پارٹیاں خاموش رہ کرکوئی کاروائی نہ کر سکیں۔

حال ہی میں جب خیبرپختونخواہ کابینہ کے وزیرقانون سلطان محمد خان اوربعض دیگر کی خریدوفروخت والی ویڈیو سامنے آئی توعمران خان نے وزیر اعلیٰ محمود خان کو حکم دیا کہ موصوف سے استعفی لےکران کو فارغ کردیں جو کہ ایک اچھی مثال ثابت ہوئی تاہم بعض سیاسی پارٹیوں اورصحافیوں نے اصل واقعہ اور اس کے پس منظر کو پس پشت ڈال کر یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی کہ گویا عمران خان اس فیصلے سے کوئی اور فائدہ اٹھانا چاہ رہے ہیں ،ایشو کو کنفیوز بنانے کی کوشش کی گئی۔ اصل صورت حال کچھ یوں ہے کہ مذکورہ ویڈیو کے دوران پیپلز پارٹی کے بعض لیڈر بشمول ایم پی اے محمد علی شاہ باچا، سلطان محمد خان اور تحریک انصاف کے تین دیگر ایم پی ایز کو نقد رقوم دے رہے ہیں اوراس بات کا سب کو علم ہے کہ پیپلز پارٹی نے اپنے دو سینیٹرز بہرہ مند تنگی اور روبینہ خالد کو اس کے باوجود بھاری اکثریت سے کامیاب کروایا تھا کہ اسمبلی میں ان ارکان کے بل بوتے پریہ کرنا ممکن ہی نہیں تھا۔ ایسے میں یہ تاثر دینا کہ یہ ویڈیو اسپیکر ہاؤس یا کسی اور حکومتی دفتر یا عمارت کی تھی غلط ہے۔ سلطان محمد خان اُس وقت قومی وطن پارٹی میں تھے جب کہ بعد میں وہ تحریک انصاف میں شامل ہو گئے اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ اب اگرعمران خان کو ان کی ویڈیو ملی تو انہوں نے ان کے خلاف کارروائی کی جبکہ اپنے 20 ممبران کے خلاف ایکشن وہ ہارس ٹریڈنگ کے فورا” بعد لے چکے تھے۔ جہاں تک عبیداللہ مایاراور دیگرکے موقف کا تعلق ہے وہ الگ کیس اور معاملہ ہے ان دونوں کیسزکی نوعیت بالکل مختلف ہے کہا جاتا ہے کہ تحریک انصاف کے تین سینٹ اُمیدواران نے

پرویزخٹک اوردیگر لیڈروں کوآفرکی تھی کہ اگران کو ٹکٹ دیئے جاتے ہیں تو وہ اپنی پارٹی کے ان چند ممبران کو مناسب رقم دے سکتے ہیں جو کہ فنڈز نہ ملنے کے باعث پرویز خٹک سے ناراض تھے۔

اس آفرکواستعمال کیا گیا اورمایارسمیت بعض دیگرکوایک انٹرا پارٹی ڈیل کے ذریعے پیسے دیے گئے جوکہ ماضی میں بعض دوسری جماعتیں پی پی پی ،نون لیگ، اے این پی اور جے یو آئی بھی کرتی رہی ہیں۔ سلطان محمد خان نے چونکہ دوسری پارٹی سے پیسے لیے تھے اس لئے انکی ویڈیو ملنے کے بعد وزارت سے فارغ کر دیا گیا یہاں یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ عبیداللہ مایاراورایسے دوسروں کو اس کے باوجود پارٹی سے نکالا تھا کہ انہوں نے بقول ان کے پرویز خٹک کے کہنے پر ترقیاتی فنڈز کے نام پرپیسے لیے تھے۔ عمران خان نے ان 20 ممبران اسمبلی کو رسک لے کرایک ایسے وقت میں پارٹی سے نکالا تھا جب ان کے وزیر اعلی پرویز خٹک کو ایم پی ایز کی حمایت کی اشد ضرورت تھی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس تمام بحث میں اس پارٹی( پی پی پی ) کا نام ہی نہیں لیا جا رہا جس نے ایک بزنس ٹائیکون کے خاص ادمی سے کروڑوں دلوا کر سلطان محمد خان سمیت متعدد دوسرے ممبران اسمبلی کی بولیاں لگاکر خیبرپختونخواہ کا شاندار جمہوری چہرہ داغدار بنا دیا۔ ایک اور نکتہ بھی بہت اہم ہے جس پر بحث لازمی ہے وہ یہ کہ جو ویڈیو سامنے آئی ہے وہ پیپلز پارٹی کی پرچیزنگ ٹیم کی بنائی ہوئی ہے اس ریکارڈنگ کا مقصد یہ تھا کہ بکنے والے ارکان کو رقم دینے کا عمل اس طریقے سے محفوظ بنایا جائے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے

کہ یہ ویڈیو حکومتی حلقوں کی بجائے پیپلزپارٹی نے لیک کی یا کروائی گئی اس لیے اس بات میں کوئی وزن نہیں کہ یہ سینٹ کے اگلے الیکشن کے پس منظر میں کیش یا لانچ کرائی گئی ہے۔ اگر حکومت ہی یہ سامنے لے آتی ہے تو بھی اس پر اعتراض کی کوئی بات اس لیے نہیں کہ یہ ویڈیو ہارس ٹریڈنگ کے بارے میں حکومتی موقف کی تائید کرتی ہے آخر میں ایک اہم اطلاع یہ ہے کہ مذکورہ ویڈیو اسلام آباد میں ریکارڈ کی گئی ہے اور بہت سے باخبر حلقوں کو فریقین کے علاوہ اس جگہ کا نام بھی معلوم ہے جہاں یہ لین دین ہوئی تھی تاہم ان حلقوں کا کہنا ہے کہ ابتدائی ملاقات یونیورسٹی ٹاؤن ،ایم پی اے ہاسٹل اور پشاور کے ایک فور سٹار ہوٹل میں ہوئی تھی ۔اسی گروپ کی ایک خاتون ایم پی اے جب نقد رقم لے کر پشاور آ رہی تھیں تو ان کو آتے وقت لُوٹا بھی گیا تھا یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ عمران خان نے جن بیس ارکان کو پارٹی سے نکال دیا تھا اس میں سات افراد ایسے ہیں جو کہ اس وقت اے این پی، پی پی پی اور مسلم لیگ نون کا حصہ بنے ہوئے ہیں اور معتبر اور عزت دار سمجھے جاتے ہیں۔ دوسری پارٹیوں کی حالت کیا رہی ہے ان کا اس سے اندازہ لگایا جائے کہ 2018 کے اسی لیکشن میں پیپلز پارٹی کی روبینہ خالد کو ناقابل یقین 42 جبکہ بہرامند تنگی کو 16 ووٹ ملے حالانکہ اسمبلی میں ان کے ممبران کی تعداد محض پانچ تھی۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket