نئے انتخابات بحران کا حل کیسے؟

عقیل یوسفزئی

سابق وزیراعظم عمران خان نے 17 جولائی کو پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے بعد ایک تفصیلی بات چیت میں جاری مسائل کے حل کو حسبِ معمول ملک میں عام انتخابات سے مشروط کردیا ہے حالانکہ ان کے پاس اس سوال کا کوئی مدلل جواب نہیں ہے کہ موجودہ سیاسی بحران، مسائل اور اقتصادی مشکلات نہ صرف ان کی حکومت میں موجود تھیں بلکہ وہ اس کے براہ راست ذمّہ دار بھی رہے ہیں. بلاشبہ موجودہ اتحادی حکومت نے تین ماہ کے دوران کوئی ایک بھی غیر معمولی پالیسی نہیں بنائی اور پنجاب کے انتخابی نتائج کو بعض دیگر اسباب کے علاوہ مہنگائی کا نتیجہ بھی قرار دیا جارہا ہے تاہم عمران خان کو یہ حقیقت بھی مد نظر رکھنی چاہیے کہ جس جیت کو وہ تاریخی فتح قرار دے رہے ہیں اس کے نتائج کے دوران ان کی پانچ سیٹیں کم ہوگئی ہیں. اب اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اگر قبل از وقت انتخابات ہوتے ہیں تو وہ پھر جیت جائیں گے یا وہ نتائج قبول کرلیں گے۔

وہ اب بھی کنفیوژن کا شکار ہیں. امریکی سازش کے بیانیہ کے علاوہ ان کے پاس اپنی کارکردگی کا کوئی بیانیہ یا تفصیلات نہیں ہیں. مقتدر قوتوں کو غیر ضروری طور پر انہوں نے اس قدر الزامات اور تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ معاملات کو نارمل ہونے میں لمبا عرصہ لگے گا۔ دوست ممالک بھی بوجوہ ان سے ناراض ہیں جبکہ ق لیگ کے علاوہ ان کا کوئی سیاسی اتحادی نہیں ہے. اس صورت میں میں محض مزاحمتی اور جذباتی طرزِ سیاست سے قبل از وقت انتخابات کا انعقاد مسائل کا حل کیسے ممکن ہوسکتا ہے اس کا جواب عمران خان اور ان کے حامیوں کے پاس بھی نہیں ہے۔ المیہ یہ ہے کہ جس طرح عمران خان کو اپنی حکومت کے جانے کا تین ماہ گزرنے کے باوجود یقین نہیں ہورہا اور وہ وزارت عظمیٰ کو اب بھی اپنا حق سمجھتے ہیں اسی طرح شھباز شریف کو بھی اپنی وزارت عظمیٰ کا یقین نہیں ہو پارہا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اتحادی حکومت ڈیلیور نہیں کر پارہی حالانکہ اس دلیل کو بھی کلی طور پر رد نہیں کیا جاسکتا کہ اس حکومت کو قائم ہونے کو محض تین ماہ کا وقت گزر چکا ہے. بات ایک درست سیاسی اور انتظامی سمت کے تعین کی ہے جو کہ ابہام کا شکار ہے. یہ تاثر اب بہت عام ہے کہ اتحادی جماعتوں کا بنیادی مقصد ملک کو اچھی گورننس دینے سے زیادہ عمران خان سے جان چھڑانا تھا. اگر ایسا نہ ہوتا تو مولانا فضل الرحمان معاملات سے لاتعلق نہ ہوتا، اے این پی ناراض نہ ہوتی اور پیپلز پارٹی پنجاب کو ن لیگ اور تحریک انصاف کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑتی۔ ان کی عدم دلچسپی یا سیاسی تنگ نظری کا یہ عالم ہے کہ تین ماہ گزرنے کے باوجود اتحادی پختون خوا سمیت بعض دیگر صوبوں کے نئے گورنر مقرر کرنے میں بھی کامیاب نہ ہوسکے. وفاقی وزراء میں بلاول بھٹو کے بغیر کسی کی کارکردگی بہتر نظر نہیں آتی جبکہ مسلم لیگ ن تاحال یہ فیصلہ بھی نہ کرسکی کہ میاں نواز شریف نے پاکستان آنا ہے یا نہیں۔

اس صورتحال کا عمران خان اس کے باوجود فائدہ اٹھا رہے ہیں کہ نہ تو ان کی حکومت کوئی مثالی حکومت تھی اور نہ ہی ان کے پاس مستقبل کا ایسا کوئی سیاسی پلان یا فارمولا موجود ہے جس کو قابل عمل سمجھا جائے. سیاسی کشیدگی کا حل تلاش کرنے کے لئے لازمی ہے کہ تمام فریقین الزام تراشیوں اور ماضی کی غلطیوں پر بحث کی بجائے ملکی حالات کا ادراک کرتے ہوئے ایک دوسرے کو برداشت کرکے تلخی کم کرنے پر توجہ دیں اور انتخابی اصلاحات کے ذریعے نظام میں موجود نقائص ختم کریں ورنہ دوسری صورت میں عوام کا جمہوری نظام اور سیاسی جماعتوں پر سے اعتماد ختم ہوجائے گا اور ملک خدا نخواستہ انارکی کی صورتحال سے دوچار ہو جائے گا۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket