اظہار رائے کا اخلاقی معیار اور ہمارے رویے

اظہار رائے کے نام پر پاکستان کے مین سٹریم میڈیا اور کی بورڈ واریئرز پر مشتمل نام و نہاد سوشل میڈیا پر آئے روز جو باتیں سننے اور پڑھنے کو ملتی آرہی ہے وہ نہ صرف ہمارے صحافتی اور سماجی حلقوں کے لئے بہت خطرناک ہے بلکہ اظہار رائے کی توہین بھی ہے۔ گزشتہ روز ایک خاتون اینکر پرسن کی ٹی وی شو میں وفاقی وزیر مراد سعید کے حوالے سے ایک بحث کے دوران ایسی گفتگو کی گئی جس نے اُن حلقوں کو بھی پریشان کر دیا جو کہ میڈیا کی آزادی کے علاوہ اظہار رائے کی مکمل آزادی پر یقین رکھتے ہیں اور ریاستی، سیاسی معاملات کا ناقدانہ جائزہ لینے کے حامی ہیں۔ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ ایسے رویوں کا اب سد باب ہونا چاہیے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت اور حکمران جماعت کے رویے اور مخالفین کے ساتھ نمٹنے کے طریقہ کار کو کسی طور قابل ستائش نہیں کہا جاسکتا اور سیاست، صحافت میں نازیبا اور غیر ذمہ دارانہ الفاظ اور القابات کی منفی بنیادیں انہوں نے ہی رکھی ہے۔ تاہم وزیراعظم اور لوئر کلاس سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان وزیر کے بارے میں جو الفاظ استعمال کیے گئے اس پر محض افسوس ہی کیا جا سکتا ہے اگر یہ اظہار رائے ہے تو اس پر پابندی لگانی چاہیے کیونکہ اظہار اور رائے دونوں کے کچھ واضح حدود اور تیور متعین ہے اور اسی رویے کا نتیجہ ہے کہ عوام کا ایک بڑا حصہ اب اس عمل سے بیزار ہو کر اس کو میڈیا گردی کا نام دے رہا ہے۔
مذکورہ پروگرام پر تبصرہ کرتے ہوئے سینئر صحافی حسن خان نے لکھا کہ ہمیں تہذیب کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر مراد سعید کے بارے میں جو کچھ کہا گیا وہ انتہائی پست ذہنیت کا عطاس تھا۔ مراد سعید کی کارکردگی کی بجائے جس طریقے سے ان کی کردار کشی کی گئی وہ کسی بھی طور پر کسی مہذب معاشرے کو نہ تو زیب دیتا ہے اور نہ ہی یہ قابل قبول ہے۔
اینکر پرسن سید وقاص خان نے اپنے ردعمل میں کہا کہ جس طریقے سے مراد سعید کے کردار پر ٹی وی پر بیٹھ کر ذومعنی سوالات اور جوابات کے ذریعے مزے لیے گئے اس میں صحافتی اور اخلاقی تقاضوں کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا۔ وفاقی وزیر کی کارکردگی پر اعتراض کیا جا سکتا ہے مگر ان کی ذات پر ہونے والے حملہ آوروں کو شرم آنی چاہیے۔


سینئر صحافی محمود جان کے مطابق ایسے اینکرپرسنز کو مزید کام کرنے سے روکا جائے کیونکہ ان کی وجہ سے صحافت کی بہت بدنامی ہو گئی ہے اور ذہنی مریضوں کے ذریعے صحافت کو مزید بدنام کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ کالم نگار جویریا صدیق نے کہا کہ ذومعنی گفتگو اور بہتان تراشی کوئی آزادی صحافت نہیں ہے کسی کو بھی اس کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

صحافی اور کالم نویس عفت حسن رضوی کے مطابق سیاسی بحث کے نام پر میزبان اور سینئر صحافیوں نے جس طریقے سے سطعی گفتگو کی وہ نہ صرف افسوسناک ہے بلکہ یہ ہماری صحافت اور سیاست کی بدقسمتی بھی ہیں۔ ہمیں اس قسم کے رویے پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket