باجوڑ میں جے یو آئی کے کنونشن پر حملہ اور شدید عوامی ردعمل

باجوڑ میں جے یو آئی کے کنونشن پر حملہ اور شدید عوامی ردعمل
عقیل یوسفزئی
پیر کے روز ضلع باجوڑ کے ہیڈ کوارٹر خار میں جے یو آئی (ف) کے ایک کنونشن پر دہشت گرد حملے کے نتیجے میں کم ازکم 43 شہری شہید جبکہ 150 سے زائد زخمی ہوگئے جن میں تقریباً ایک درجن زخمیوں کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے. شہداء میں مذکورہ پارٹی کے مقامی عہدیداروں، کارکنوں سمیت 6 بچے بھی شامل ہیں جن میں سے بعض اس ایونٹ میں اشیاء فروخت کرنے آئے تھے. آئی جی پولیس پختون خوا نے اس حملے کو خودکش حملہ قرار دیا جبکہ ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق اس میں تقریباً 12 کلو کا ہائی لیول بارودی مواد استعمال کیا گیا.
شہداء اور زخمیوں کو مقامی ہسپتال منتقل کردیا گیا تاہم شدید زخمیوں کو فوجی ہیلی کاپٹروں میں پشاور کے سی ایم ایچ اور لیڈی ریڈنگ اسپتال منتقل کیا گیا. آئی جی ایف سی میجرجنرل نورولی خان نے ریسکیو آپریشن کی خود نگرانی کی جبکہ گورنر غلام علی اور وزیراعلیٰ نے متعلقہ اسپتالوں کا دورہ کرکے زخمیوں کی عیادت کی.
مولانا فضل الرحمان اور تمام سیاسی، حکومتی قایدین نے اس افسوس ناک واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کی جبکہ جید علماء نے ایسے حملوں کو خلاف اسلام قرار دے کر ذمہ داروں کو سخت سزائیں دینے کا مطالبہ کیا.
رواں سال یعنی 2023 کے دوران یہ خیبر پختون خوا میں اموات کی تعداد کے لحاظ سے دوسرا بڑا حملہ قرار دیا گیا. اس سے قبل 30 جنوری کو پشاور کی پولیس لائن میں ایسا ہی ایک حملہ کیا گیا تھا جس میں تقریباً 90 افراد شہید ہوئے تھے.
باجوڑ حملہ اس حوالے سے بہت خطرناک رہا کہ عرصہ دراز کے بعد پہلی دفعہ کسی سیاسی جماعت کو نشانہ بنایا گیا. اگر چہ رواں برس پختون خوا میں ریکارڈ حملے کئے گئے تاہم 95 فی صد حملوں کے دوران سیکورٹی فورسز خصوصاً پولیس کو نشانہ بنایا گیا. دوسری اہم بات یہ رہی کہ جے یو آئی (ف) طالبان کی ٹاپ لیڈرشپ کی کافی قریب رہی ہے اور اس پارٹی کے قائدین میں سے اکثر کو پاکستان اور افغانستان کے طالبان اپنے استاد سمجھتے آئے ہیں. یہی وجہ ہے کہ دونوں گروپوں نے اس واقعے کی مذمت کی تاہم یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ مولانا فضل الرحمان پر اس سے قبل دو تین بار حملے کئے جاچکے ہیں. اس سے قبل رواں سال جماعت اسلامی کے مرکزی امیر سراج الحق پر بلوچستان کے ضلع ژوب میں بھی ایک خودکش حملہ کیا گیا تھا. اس تناظر میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ حملے تحریک طالبان پاکستان کررہی ہے تو وہ ان سے انکاری کیوں ہے اور دوسرا یہ کہ کیا ان حملوں میں داعش یا اس کی سرپرستی کرنے والی بعض عالمی طاقتیں ملوث ہیں؟
داعش اس سے قبل متعدد بار ایسے حملوں میں ملوث رہی ہے اس ضمن میں گزشتہ برس کوچہ رسالدار پشاور میں شیعہ مسجد پر ہونے والے بدترین حملے کے علاوہ کوہاٹ روڈ پر موجود ایک مدرسہ پر ہونے والی کارروائی کی مثال دی جاسکتی ہے.
داعش کے خلاف پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے پشاور اور متعدد دیگر شہروں میں متعدد آپریشن بھی کئے جبکہ یہ نہ صرف یہ کہ اپنی تکفیری نظریات اور وابستگی کے پس منظر میں دیوبندی مسلک کی سخت مخالف ہے بلکہ اس میں ٹی ٹی پی کے متعدد سخت گیر پاکستانی کمانڈرز اور جنگجو بھی ماضی میں شامل ہوتے رہے ہیں.
ماہرین نے ابتدائی طور پر اس حملے کو داعش کی کارروائی کا نتیجہ قرار دیا تاہم حتمی طور پر بغیر کسی دعوے یا تحقیقات کی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا.
دوسری اہم بات اس روز یہ رہی کہ عین اس حملے کے دوران چاینا کے نایب وزیراعظم ایک نمائندہ وفد کے ہمراہ سی پیک پراجیکٹ کی 10 سالہ تقریبات میں شرکت کیلئے پاکستان پہنچے. ماہرین نے اس حملے کو اس اہم دورے اور بعض عالمی قوتوں کی سی پیک مخالف پالیسیوں کے تناظر میں دیکھا کیونکہ اس حملے کی ٹایمنگ کو نظرانداز کرنا باخبر حلقوں کے لیے ممکن نہیں.
یہ بات اب راز نہیں رہی کہ داعش کے علاوہ متعدد دوسری عسکریت پسند گروپ نہ صرف عالمی پراکسیز کے لیے استعمال ہوتے آئے ہیں بلکہ متعدد پاکستان کے اندر عدم استحکام کی کوششوں کا حصہ بھی بنتے رہے ہیں. اسی تناظر میں یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اس حملے کی پلاننگ اور ٹایمنگ کو اس پس منظر میں دیکھنے والے غلط نہیں ہیں.
عجیب صورتحال یہ ہے کہ کہ 30 جولائی کو جب یہ حملہ ہوا اس روز جہاں چاینا کے اعلیٰ سطحی وفد نے پاکستان پہنچنا تھا وہاں دوحہ قطر میں امریکہ اور افغانستان کی طالبان حکومت کے اہم مذاکرات کے لئے بھی وفود پہنچ چکے تھے. اس لئے ان تمام عوامل کی ایک دوسرے کے ساتھ کوئی نہ کوئی لنک ضرور ہے.
دوسری جانب پاکستان میں نئے انتخابات کی تیاریاں بھی آخری مراحل میں داخل ہوگئی ہیں. شاید یہی وجہ ہے کہ بے شمار سیاسی کارکنوں اور تجزیہ کاروں نے اس واقعے کے بعد سوال اٹھایا کہ کیا اس صورتحال میں صوبہ خیبر پختون خوا میں عام انتخابات کا انعقاد ممکن بھی ہے یا نہیں؟
اسباب و عوامل جو بھی ہو مسلسل حملوں نے جہاں بعض فیصلہ کن سیکیورٹی، حکومتی اقدامات کی ضرورت کو پھر سے زیر بحث بنایا ہے وہاں افغانستان کی صورتحال، ٹی ٹی پی سے متعلق اقدامات، نئے انتخابات کے خدشات اور نگران صوبائی حکومت کی کارکردگی جیسے ایشوز کے بارے میں بھی متعدد سوالات پیدا کئے ہیں.

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket