وزیرستان کے ایم این اے علی وزیر کی گرفتاری کے خلاف کراچی میں ایک احتجاجی ریلی نکالی گئی اور مظاہرین نے سندھ اسمبلی کی عمارت کے سامنے دھرنا دیا۔ مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ سندھ حکومت اعلیٰ عدلیہ کے حکم اور فیصلے کے مطابق علی وزیر کو رہا کرے تاہم تادم تحریر سندھ حکومت کا کوئی رد عمل اور موقف سامنے نہیں آیا ہے جس نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔
سوشل میڈیا پر علی وزیر کے حامی پیپلز پارٹی یا اس کی صوبائی حکومت پر تنقید کی بجائے بعض اہم ریاستی اداروں کو اس صورتحال کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں حالانکہ ان سمیت سب کو معلوم ہے کہ موصوف کی گرفتاری سندھ پولیس کی ایک ایف آئی آر کے نتیجے میں عمل میں لائی گئی ہے اور اس پراسس میں دوسرے اداروں کا انتظامی اور قانونی طور پر کوئی عمل دخل نہیں ہے۔
اعلیٰ عدلیہ میں علی وزیر کی جانب سے جو موقف اپنایا گیا ہے اس میں بھی سندھ حکومت کو فریق بنایا گیا ہے حالانکہ وہ بیانات ریکارڈ پر ہے جن میں بلاول بھٹو زرداری، فرحت اللہ بابر اور بعض دیگر اہم رہنماء ماضی میں علی وزیر اور پی ٹی ایم کی کھل کر حمایت کرتے دکھائی دیے۔
سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور پولیس بھی اس حکومت کے ماتحت ہے اگر علی وزیر واقعی بے گناہ ہے تو پہلے سوال یہ اٹھتا ہے کہ ان کے خلاف ایف آئی آر کیوں درج کرائی گئی اور دوسرا یہ کہ عدالتی حکم کے مطابق ان کو رہا کیوں نہیں کیا جا رہا ہے۔
اس ضمن میں وائس آف کے پی سے گفتگو کرتے ہوئے علی وزیر کے وکیل قادر خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ قانونی طور پر ان کے موکل کے خلاف سندھ پولیس اور حکومت ہی نے کاروائی کی ہے اس لیے مظاہرین سندھ حکومت ہی سے ان کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق اب تک کے اقدامات اور پر اسرار خاموشی سے تو لگ یہ رہا ہے کہ اس تمام صورت حال کی ذمہ دار صوبائی حکومت ہی ہے تاہم اگر پس پردہ کچھ رکاوٹیں حائل ہیں تو صوبائی حکومت اس کی وضاحت کرکے اپنی پوزیشن واضح کرے۔ ان کے مطابق اس کیس میں پیپلز پارٹی کے کردار کو سوالیہ نشان بنا دیا ہے۔
تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ بعض سیاسی حلقے جان بوجھ کر بعض معاملات کو مشکوک بنا کر بعض ریاستی اداروں کو متنازعہ بنا تے ہیں حالانکہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ بعض سیاسی قوتوں اور گروپوں پر اس کے باوجود سخت گرفت نہیں کی جا رہی ہیں کہ ان کے رابطوں اور سرگرمیوں کے بارے میں بقول اداروں کے ان کے پاس متعدد ٹھوس ثبوت موجود ہیں۔