عمران خان کے الزامات پر سخت ریاستی ردعمل

سابق وزیراعظم عمران خان نے ایبٹ آباد میں ایک جلسہ کے دوران روایتی جارحانہ انداز میں ایک بار پھر امریکہ، پاک فوج، عدلیہ اور میڈیا پر اپنی حکومت کے خلاف سازش کا روایتی الزام لگاکر ثابت کیا کہ وہ نہ صرف مزاحمت کی آڑ میں عوام میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی مہم پر ہیں بلکہ وہ اشتعال انگیز ی بھی پھیلا رہے ہیں جس کا اب عملی نوٹس لینا چاہئے. کیونکہ وہ ایک غیر قانونی راستہ اپنا چکے ہیں۔
اسی کے ردعمل میں وزیراعظم شھباز شریف نے پہلی بار سخت موقف اختیار کرتے ہوئے عندیہ دیا کہ عمران خان کے خلاف ریاست مخالف سرگرمیوں کی بنیاد پر کارروائی ہوسکتی ہے۔ شھباز شریف کے مطابق حکومت نے مصلحت اور مفاہمت سے بہت کام لیا مگر عمران خان ریاستی اداروں پر بےبنیاد الزامات لگاکر ملک میں انتشار پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں جسکی مزید اجازت نہیں دی جا سکتی. ان کے مطابق اس صورت حال پر مزید خاموش نہیں رہا جا سکتا اور اب قانون حرکت میں آ کر رہےگا۔
DG ISPRدوسری طرف افواج پاکستان کے شعبہ تعلقات عامہ نے بھی بعض سیاسی عناصر، صحافیوں اور اینکرز کی جانب سے فوج کو سیاست میں گھسیٹنے کے رویے پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ عناصر سیاسی بحث اور گفتگو میں فوج کے بارے میں غیر حقیقت پسندانہ رویہ سے گریز کریں۔
عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد ان معاملات پر یہ پاک فوج کی تیسری یا چوتھی پالیسی سٹیٹمنٹ ہے جو جاری کی گئی ہے تاہم موصوف اور ان کی پارٹی پر شاید کسی بات کا اثر نہیں پڑنے والا اور وہ پاک فوج کو متنازعہ بنانے کی ایک خطرناک مہم جوئی پر عمل پیرا ہیں۔ ان کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ ریاست کی ذمہ داری اور کیپسٹی کیا ہے اور اس ضمن میں لوگوں کو اکسانے اور انتشار پر آمادہ کرنے کے جرم میں کیا کچھ کیا جا سکتا ہے اس کے باوجود وہ اشتعال انگیز ی سے باز نہیں آتے جس پر شاید اب خاموش رہنا پاکستانی ریاست کے وسیع تر مفاد میں ممکن نہیں ہے۔
وقت کا تقاضا ہے کہ جو عناصر اس بے بنیاد مہم جوئی میں شامل ہیں ان سب کو بروقت لگام ڈال کر ریاست اپنی ذمہ داریاں پوری کرے اور مذید مصلحت سے کام نہ لیا جائے ورنہ جس راستے پر بعض لوگ چل پڑے ہیں خدانخواستہ اس راستے پر کوئی حادثہ پیش آیا تو اس کی تلافی ممکن نہیں ہو گی اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ پاکستان کو پہلے ہی سے بہت سے سنگین اندرونی اور بیرونی خطرات کا سامنا ہے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket