پختونخوا حکومت کی شکایات

پختونخوا حکومت کی شکایات

عقیل یوسفزئی

تحریک انصاف کی صوبائی حکومت مسلسل الزامات لگاتی آرہی ہےکہ وفاقی حکومت صوبے کے ساتھ اقتصادی معاملات میں ذیادتی کررہی ہے اور یہ کہ صوبے کو اسکے وہ اربوں روپے ادا نہیں کررہی جو کہ قبائلی علاقوں کے لیے وفاق نے دینے ہیں۔ ساتھ میں بجلی کے خالص آمدن اور گیس، تیل کی رائلٹی کی مد میں بھی رقوم کی ادائیگی نہ ہونے کی شکایات بھی سامنے آئی ہیں۔

وزیر اعلیٰ، وزیر خزانہ اور مشیر اطلاعات کے مطابق مرکزی حکومت نے قبائلی علاقوں کے لئے مختص تقریباً اربوں روپے روک رکھے ہیں جس سے ترقیاتی منصوبوں میں رکاوٹ پیش آرہی ہے۔ اگر صوبائی حکومت کا موقف واقعی درست ہے تو اس مسئلے اور رویے کا وزیر اعظم شھباز شریف اور دوسرے اتحادیوں کو نہ صرف فوری طور پر نوٹس لینا چاہئے بلکہ وضاحت بھی پیش کرنی چاہیے کہ ایسا کیوں کیا جارہا ہے. قبائلی علاقوں کے متعدد اہم عوامی نمائندے پہلے ہی یہ الزام لگاتے رہے ہیں کہ اس سے قبل کے پی حکومت نے تقریباً 40 ارب روپے ضم اضلاع کی بجائے صوبے کے بندوبستی علاقوں میں خرچ کیے ہیں۔ اب اگر وفاقی حکومت ایسا ہی رویہ اختیار کرتی ہے تو یہ بہت ذیادتی والی بات ہوگی کیونکہ سات قبائلی اضلاع پہلے ہی سے بنیادی ضروریات اور سہولیات سے محروم ہیں اور انضمام کا بنیادی مقصد بھی یہی تھا کہ ان شورش زدہ علاقوں کی مین سٹریمینگ کرکے ان کی ترقی کو ممکن بنایا جائے۔ یہ علاقے دہشتگردی کا شکار رہے ہیں اور اب بھی مجموعی صورتحال کو اطمینان بخش قرار نہیں دیا جاسکتا۔

امن و امان کے علاوہ ترقیاتی عمل اور متعدد وہ ذمہ داریاں بھی پاک فوج نبھاتی آرہی ہے جو کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے فرائض میں شامل ہیں۔ لگ یہ رہا ہے کہ دونوں حکومتوں نے عملاً قبائلی علاقوں سے لاتعلقی اختیار کی ہے۔ ایسے میں اگر ان علاقوں کے فنڈز جاری نہیں کئے جاتے یا وفاقی حکومت صوبے کے جائز حقوق کا تحفظ یقینی نہیں بناتی تو اس پر خاموش نہیں رہا جا سکتا کیونکہ قبائلی علاقوں کے امن اور استحکام سے پورے ملک بلکہ خطے کا امن اور استحکام جڑا ہوا ہے۔ ماضی میں ہونے والی ذیادتی کا ازالہ کرنا پاکستان کی سلامتی اور استحکام کیلئے لازمی ہے۔ اسی طرح صوبے کے جنوبی اضلاع کی ترقی پر بھی خصوصی توجہ کی اشد ضرورت ہے کیونکہ ان علاقوں کو بھی اس کے باوجود پسماندہ رکھا گیا ہے کہ یہاں قدرتی وسائل کے اتنے ذرائع موجود ہیں کہ اگر ان کو بروئے کار لا یا جائے تو ملک کے توانائی کے آدھے مسائل حل ہوجائیں۔

یہ بات بھی حل طلب ہے کہ 5000 میگاواٹ کی سستی بجلی پیدا کرنے والے صوبے کو چند مہینوں سے بدترین لوڈشیڈنگ کا سامنا ہے جبکہ بجلی کی رائلٹی کی مد میں بھی وفاقی حکومت مسلسل ٹال مٹول سے کام لیتی آرہی ہے۔ اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہو سکتی ہے کہ عمران خان کے اپنے دور حکومت میں بھی پختون خوا کو اس کے جائز حقوق نہیں ملے۔ موجودہ حکومت کو تو ابھی اقتدار سنبھالے چند ہی مہینے ہوگئے ہیں اور اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد بہت سے معاملات صوبے کی ڈومین میں آتے ہیں اس لیے لازمی ہے کہ صوبائی حکومت بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کرے اور محض سیاسی مخالفت کی بنیاد پر وفاقی حکومت پر الزامات لگانے کا سلسلہ ختم کرے۔ وفاقی حکومت کے ساتھ بہتر ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنا محمود خان حکومت کی ذمہ داریوں میں شامل ہے کیونکہ صوبے کے زیادہ تر اقتصادی معاملات کا انحصار اب بھی وفاقی حکومت کے فنڈز پر ہے اور دونوں حکومتوں کی محاذ آرائی کی قیمت صوبے کے عوام کو ادا کرنی پڑے گی۔ یہ بات بھی قابل افسوس ہے کہ 2010 کے بعد نئے این ایف سی ایوارڈ کا اجراء نہیں ہوا ہے۔ اس معاملے پر بھی تمام اسٹیک ہولڈرز کو سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا ہوگا تاکہ صوبے کے حقوق کا تحفظ کیا جاسکے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket