کراچی میں عامر لیاقت حسین کی موت سے خالی ہونیوالی قومی اسمبلی کی نشست پر تحریک انصاف کے امیدوار نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرلی ہے تاہم ٹرن آوٹ 11.8 فیصد رہا جو کہ انتہائی کم ہے اور اس بات کا ثبوت بھی کہ عوام شاید جاری سیاسی کشیدگی کے باعث جمہوری نظام سے مایوس اور بد دل ہوچکے ہیں.
سب سے بڑا معرکہ اگلے مرحلے میں 25 ستمبر کو سر کیا جائے گا جب قومی اسمبلی کے 13 حلقوں پر ضمنی انتخابات کا انعقاد ہو گا. یہ الیکشن ان حلقوں میں لڑا جائے گا جن سے تحریک انصاف نے استعفے دیے ہیں اور اسپیکر نے ان میں سے صرف یہ منظور کئے ہیں. اب کے بار سب سے منفرد بات یہ ہے کہ کہ سابق وزیر اعظم عمران خان 9 حلقوں سے الیکشن لڑیں گے جو کہ اس سے قبل کھبی نہیں ہوا. ان میں خیبر پختون خوا کے 4 حلقے بھی شامل ہیں جھاں الیکشن کی مہم میں دن بدن اضافہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے.
پشاور میں عمران خان کا مقابلہ اے این پی کے سینئر رہنما غلام احمد بلور کے ساتھ ہوگا جو کہ اس حلقے سے ماضی میں 3 بار منتخب ہوتے آئے ہیں اور اب کے بار ان کو پی ڈی ایم کی حمایت بھی حاصل ہے. تاہم اس حلقے سے عمران خان بھی ماضی قریب میں کامیاب ہوگئے تھے.
چارسدہ میں بھی مقابلہ اے این پی اور تحریک انصاف کے درمیان ہے جھاں سے اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان پی ڈی ایم کی حمایت سے عمران خان کا مقابلہ کرنے نکل آئے ہیں اور کامیاب انتخابی مہم چلا رہے ہیں. مردان کا حلقہ بھی سب کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے جھاں پر جے یو آئی ف کے سینئر رہنما مولانا قاسم پی ڈی ایم کے امیدوار ہیں.
تحریک انصاف نے گزشتہ روز ضمنی انتخابات کیلئے مختلف کمیٹیاں تشکیل دی ہیں اور صوبائی صدر پرویز خٹک اس مہم کی نگرانی کررہے ہیں.
ان انتخابات کو اگلے الیکشن کے تناظر میں بہت اہمیت دی جارہی ہے کیونکہ اس کے نتائج سے عوام کے موڈ اور مختلف پارٹیوں کی مقبولیت کا اندازہ ہوسکے گا اور اگر عمران خان جیت جاتے ہیں تو اس سے نہ صرف پی ڈی ایم اور اتحادی جماعتوں کی ساکھ متاثر ہوگی بلکہ موجودہ وفاقی حکومت کے حال اور مستقبل پر بھی سوالات اٹھائے جائیں گے اس لیے تجزیہ کار ان انتخابات کو بہت زیادہ اہمیت دے رہے ہیں.
