عقیل یوسفزئی
یہ بات قابل تشویش ہے کہ سات آٹھ مہینے گزرنے کے باوجود 9 مئی کے ذمہ داروں کے خلاف اس نوعیت کی کوئی موثر کارروائی نہیں کی جاسکی جس کی توقع یا ضرورت تھی. اب بھی اس پارٹی کے عہدیداروں کو عدالتوں کی جانب سے تھوک کے حساب سے نہ صرف یہ کہ ضمانتیں مل رہی ہیں بلکہ ان کو 8 فروری کے انتخابات میں حصہ لینے کی راہیں بھی ہموار کی جارہی ہیں جس پر دوسری پارٹیوں کے علاوہ عوام کی بڑی تعداد بھی شدید اعتراض کرتے دکھائی دے رہی ہے. کمال کی بات یہ ہے کہ 9 مئی کے واقعات میں ملوث افراد اور لیڈرز نہ صرف ان واقعات کی کھل کر مذمت نہیں کررہے بلکہ ریاستی اداروں کے خلاف اب بھی منفی پروپیگنڈا میں مصروف ہیں اور اپر سے یہ شکوہ بھی کررہے ہیں کہ ان کو الیکشن میں درکار مواقع فراہم نہیں کئے جارہے. یہ بہت عجیب قسم کی بات ہے کہ جو سینکڑوں لوگ ان واقعات میں ملوث ہونے کے باعث مفرور ہیں یا نام نہاد عدالتوں سے ضمانتوں پر ہیں اگر الیکشن کمیشن طریقہ کار کے مطابق ان کے کاغذات نامزدگی مسترد کرتا ہے تو اس پر شور شرابہ کیا جاتا ہے. اگر عدالتوں نے ان کو رعایتیں نہیں دی ہوتیں تو ان کو ریاست کے خلاف مزید پروپیگنڈا اور سازشوں کی ہمت نہیں ہوتی. آج اگر ایک طرف پاکستان کو بدترین دہشت گردی کا سامنا ہے تو دوسری طرف اسے ایسے شرپسندوں کی سرگرمیوں کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے. حالت یہ ہے کہ یہ لوگ سیکیورٹی فورسز کے ان شہداء کا بھی مذاق اڑانے سے گریز نہیں کررہے جو کہ روزانہ کی بنیاد دہشت گرد حملوں کا نشانہ بنتے ہیں. مذکورہ پارٹی کے “کی بورڈ واریررز” فورسز اور ریاستی اداروں کے خلاف مسلسل پروپیگنڈا میں مصروف عمل ہیں. اور غالباً یہی وجہ ہے کہ سینیٹ نے گزشتہ روز ایسے عناصر کے خلاف سخت اقدامات کی قرارداد منظور کرلی تاکہ ان کی شرپسندی کا راستہ روکا جائے. وقت کا تقاضا ہے کہ بغیر کسی تاخیر اور رعایت کے ان عناصر کو قابو کرکے عبرت کا نشان بنایا جائے اور ان کو عدالتوں کی جانب سے جو رعایتیں مل رہی ہیں اس سلسلے کا بھی راستہ روک دیا جائے.
پشاور پولیس نے دہشت گردوں کی جانب سے تھانے اور چوکی پر حملے کی کوشش ناکام بنادی
خیبر پختو نخوا پو لیس کے مطابق قبائلی ضلع خیبر اور پشاور کی سرحد پر دہشت گردوں کی جانب سے پولیس تھانے اور چوکی پر بڑے حملے کا منصوبہ ناکام بنا دیا گیا۔ پولیس نے الرٹ رہتے ہوئے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے دہشت گردوں کو پسپا ہونے پر مجبور کردیا۔
ایس ایس پی کاشف آفتاب عباسی نے بتایا کہ قبائلی ضلع خیبر اور پشاور کے سرحدی علاقے میں نصب تھرمل ویپن نے دہشت گردوں کی نقل و حمل کو مانیٹر کیا۔ جمعہ خان خوڑ کے قریب شدت پسند پولیس تھانہ اور چوکی پر حملے کے لیے پوزیشن ڈھونڈ رہے تھے کہ تھرمل ویپنز سے شدت پسندوں کا حملہ ناکام بنادیا گیا۔ 8 سے 10 دہشت گرد پولیس تھانے اور چوکی پر حملہ کرنا چاہتے تھے، تاہم پولیس کی بروقت جوابی کارروائی سے دہشت گرد اپنا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہے اور رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھا کر فرار ہوگئے۔ واقعے کے بعد علاقے میں سرچ آپریشن شروع کردیا گیا ہے۔
شاہین آفریدی اور امام الحق تیسرے سڈنی ٹیسٹ میچ سے ڈراپ
آسٹریلیا کے خلاف سڈنی میں ہونے والے تیسرے ٹیسٹ میچ کے لئے قومی ٹیم کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ ٹسٹ سکواڈ سے شاہین شاہ آفریدی اور امام الحق کو ڈراپ کر دیا گیاہے جبکہ صائم ایوب اور ساجد خان کو پلیئنگ الیون کا حصہ بنایا گیا ہے۔ صائم ایوب ٹیسٹ ڈیبیو کریں گے۔
قومی ٹیم میں کپتان شان مسعود، بابراعظم، محمد رضوان، صائم ایوب، عبداللہ شفیق، سعود شکیل، سلمان علی آغا، ساجد خان، حسن علی، میر حمزہ اور عامر جمال شامل ہیں۔
سڈنی ٹیسٹ میں شاہین آفریدی کو آرام کی غرض سے پلیئنگ الیون کا حصہ نہیں بنایا گیا ہے،واضح رہے کہ آسٹریلیا کو ٹیسٹ سیریز میں دو صفر سے برتری حاصل ہے۔
پشاور ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس قیصررشید وفات پا گئے
سابق رئٹائرڈ چیف جسٹس گردوں کے عارضہ میں مبتلا تھے۔ پشاورہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس قیصر رشید نجی اسپتال میں زیرعلاج تھے۔ چ چیف جسٹس قیصر رشید گذشتہ تین دن سے وینٹی لیٹرپرتھے۔ اسپتال حکامکیمطا بق گزشتہ 3روز سے اسٹروک کے باعث کومے میں گئے تھے۔ اسپتال حکام کیمطا بق گذشتہ سال جسٹس ریٹائرڈ قیصررشید کا کڈ نی ٹرانسپلانٹ کا آپریشن بھی ہوا تھا۔ اسپتال حکام نے بتایا کہ جسٹس ریٹائرڈ قیصر رشید خان کی اہلیہ نے انہیں گردہ بھی دیا تھا۔ جسٹس قیصر رشید 2023 میں بطور چیف جسٹس ریٹائرڈ ہوئے تھے۔
پشاور انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کی بین الاقوامی سطح پر ایک اور کامیابی
امریکن کالج آف پیتھالوجسٹ نے پشاور انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے لیبارٹری کی ٹیسٹ رپورٹس معیاری قرار دے دیں۔ پی آئی سی امریکن کالج آف پیتھالوجسٹ کے پروفیشنسی کوالٹی ٹیسٹنگ میں حصہ لینے والا خیبر پختونخوا کا پہلا سرکاری ہسپتال ہے۔ امریکن کالج نے 250 سے زائد خون اور دیگر ٹیسٹ کے نمونے پی آئی سی بھجوائے ۔ ہسپتال کے لیب میں تمام ٹیسٹ کرنے کے بعد رپورٹس کالج کو واپس بھجوائی گئیں ۔ رپورٹس 100 فیصد درست اور انٹرنیشنل معیار کے مطابق قرار دی گئیں۔ ترجمان پی آئی سی رفعت انجم کا کہنا تھا کہ لیب ٹیسٹ میں ہیماٹالوجی،کیمیکل پیتھالوجی، مائیکرو بیالوجی ، بلڈ بینک اور میریضوں کے بیڈ سائیڈ مشینوں کے نمونے شامل تھے۔ امریکن کالج کی جانب سے نمونوں میں گردوں، جگر،ہیپٹائٹس ،کولیسٹرول،شوگر ،خون کی مختلف بیماریوں کی تشخیص کے ٹیسٹ شامل تھے۔ ترجمان پی آئی سی نے بتا یا کہ لیب میں مختلف جراثیم کی تشخیص اور علاج کیلئے استعمال ہونے والی ادویات کی بھی جانچ پڑتال کی گئی جو درست نکلیں۔ ہسپتال ڈائریکٹر ڈاکٹر نعمت شاہ نے کہا امریکن کالج آف پیتھالوجسٹ کی جانب سے پی آئی سی لیب کی رپورٹ منظور کرنا بڑی کامیابی ہے۔ پی آئی سی کا صوبے اور پاکستان بھر کے مریضوں کو عالمی معیار کے مطابق علاج فراہم کرنا ہمارا مشن ہے۔ بہترین علاج، اقدامات اور حکمت عملی کے باعث 3 سال میں پی آئی سی نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر کافی نام کمایا جو باعث فخر ہے۔پی آئی سی بین الاقوامی معیار کے مطابق علاج معالجہ فراہم کرنے پر پاکستان کا پہلا سرکاری آئی ایس او سرٹیفائیڈ ہسپتال کا اعزاز بھی حاصل کر چکا ہے۔
کاغذات نامزدگی کے خلاف اپیلوں کا عمل 3 جنوری تک جاری رہے گا
جنرل الیکشن 2024 میں حصہ لینے والے امیدواروں کی کاغذات نامزدگی کے منظور یا مسترد ہونے کے خلاف اپیلیں جمع کرانے کا عمل پیر کے دن سے شروع کیا گیا ہے جو کہ بدھ کے روز 3 جنوری تک جاری رہے گا۔ کاغزات کی منظوری یا استرداد کے فیصلے 10 جنوری 2024 تک کر دیے جائیں گے جبکہ امیدواروں کی حتمی فہرست 11 جنوری کو جاری کر دی جائیگی- امیدوار 12 جنوری تک اپنے کاغذات نامزدگی واپس لے سکتے ہیں۔ جس کے بعد انتخابی نشانات 13 جنوری کو الاٹ کئے جائیں گے۔ عام انتخابات کیلئے پولنگ8فروری 2024 کو ہو گی۔
لیول پلینگ فیلڈ
وصال محمد خان
جب سے انتخابات کے عمل کاآغازہواہے تب سے اسکی راہ میں روڑے اٹکانے کاسلسلہ بھی جاری ہے ابتدامیں آر۔اوز۔کے معاملے پرپی ٹی آئی نے لاہورہائیکورٹ سے رجوع کیا. ہائیکورٹ نے حکم امتناع جاری کیاجس سے انتخابات کے عمل میں تعطل پیداہواسپریم کورٹ کی مداخلت سے یہ مرحلہ بخیروخوبی انجام کوپہنچااورانتخابات کی ہچکولے کھاتی ہوئی گاڑی دوبارہ چل پڑی بلکہ سپریم کورٹ کے حکم سے یہ امیدبھی پیداہوئی کہ اب انتخابات کی گاڑی بلاتعطل رواں دواں رہے گی اس دوران الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے انٹراپارٹی انتخابات کومسترد کرکے اس کامطلوبہ انتخابی نشان بلا واپس لے لیا۔تحریک انصاف نے پشاورہائیکورٹ سے رجوع کیاہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کومسترد کیا۔ہائیکورٹ کے اس فیصلے کوقومی میڈیاپرخاصی شہرت ملی سابق وزیراعظم میاں شہبازشریف نے کراچی میں پشاورہائیکورٹ کے فیصلے کوتنقیدکانشانہ بنایاان کاکہناتھاکہ ایک صوبے کی ہائیکورٹ پورے ملک کیلئے کیونکر کوئی فیصلہ صادرکرسکتی ہے ؟ قانونی اعتبارسے شہباز شر یف کامؤقف اگرچہ درست نہیں ہے مگراسے وزن اسلئے ملاکہ ہائیکورٹ کے جس جج نے حکم امتناع یافیصلہ جاری کیاہے انکے قریبی عزیز تحریک انصاف کے امیدوارہیں اورانہیں خودتحریک انصاف دورمیں تعینات کیاگیاتھایعنی مشترکہ مفادات کاکیس بن جاتاہے لیکن قانونی اعتبارسے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف ملک کے کسی بھی ہائیکورٹ سے رجوع کیاجاسکتاہے ۔اس سے قبل پی ٹی آئی کے نئے چیئرمین گوہرخان کاکہناتھاکہ وہ سپریم کورٹ یاکسی بھی ہائیکورٹ سے رجوع کافیصلہ جلدکرینگے ۔چونکہ سیاسی سماجی اورعوامی حلقوں میں یہ تاثرقائم ہوچکاہے کہ پشاورہائیکورٹ گزشتہ کچھ عرصے سے تحریک انصاف کوفیوردے رہی ہے اسلئے یہ اطلاعات تھیں کہ تحریک انصاف الیکشن کمیشن فیصلے کے خلاف پشاورہائیکورٹ سے ہی رجوع کرے گی حسب توقع یہ رجوع ہوا۔اورپی ٹی آئی کوریلیف ملااب یہ ریلیف درست ہے یا غلط اس کافیصلہ ڈبل ڈویژن بنچ کرے گا۔ پشاورہائیکورٹ کے اس فیصلے کوقومی میڈیامیں تنقیدکانشانہ بنایاگیا۔حالیہ عرصے میں عدلیہ کے فیصلوں اور معاملات کوسوشل میڈیاپرضرورت سے زیادہ اچھالنے کی روایت سی بن چکی ہے اوراس روایت کوفروغ دینے کی ذمہ داری تحر یک انصاف پرعائدہو تی ہے مذکورہ پارٹی کایہ وطیرہ رہاہے کہ وہ ہرمعاملے کولائیومیچ میں تبدیل کردیتاہے اوراسے ہرخاص وعام کے تبصروں کامحوربنادیا جاتاہے یعنی اس مقولے پرعمل کیاجاتاہے کہ ‘‘جھوٹ بولناہے تواتنابولوکہ وہ سچ نظرآنے لگے ’’ تحریک انصاف نے چونکہ سوشل میڈیاپرسرما یہ کاری کررکھی ہے اورخیبرپختونخوامیں دورانِ حکومت سوشل میڈیاکیلئے سرکاری خرچ پرورکرز رکھے گئے تھے جو جھوٹ کوپھیلانے اوراسے سچ کی شکل دینے میں یکتاہیں ۔رواں انتخابات میں تحریک انصاف کے امیدواروں کی کاغذاتِ نامزدگی کا معاملہ ہی لیجئے جن امیدواروں کے کاغذات مستردہوئے ہیں وہ محض اسلئے مستردنہیں ہوئے کہ یہ امیدوارتحریک انصاف سے متعلق تھے۔ بلکہ ان کاغذات میں کمی تھی 9مئی کے بعدچونکہ اکثرراہنماروپوش ہیں نہ ہی وہ عدالتوں میں پیش ہورہے ہیں اورنہ ہی اپنے خلاف قائم مقدمات کاسامنا کرتے ہیں اس روش سے تنگ آکرکچھ نام نہادراہنماؤں کے شناختی کارڈزبلاک کردئے گئے ہیں اب جس شہری کاشناختی کارڈبلاک ہووہ انتخابات میں حصہ کیسے لے سکتاہے؟کسی اشتہاری کوکیسے اجازت دی جاسکتی ہے کہ وہ انتخابات میں حصہ لے ؟یاریاست اوراسکے اداروں پرانگشت نمائی کیساتھ ساتھ برابھلاکہنے والوں کوعوامی نمائندگی کاحق کیونکردیاجاسکتاہے ؟ روپوش راہنماؤں نے کسی دوسرے شخص سے کاغذاتِ نامزدگی منگوائے ،تیسرے سے فارم بھروائے اورچوتھے پانچویں کوتجویزاورتائیدکنندہ مقررکیا اکثرامیدواروں کے تجویزاورتائیدکنندگان کاتعلق کسی دوسرے حلقے سے ہے یاانہیں علم ہی نہیں کہ وہ کسی کے تجویزیاتائیدکنندگان بن چکے ہیں انہیں یاتو ریٹرننگ افسران کے سامنے پیش ہی نہیں کیاجاسکایا اگرپیش کیاگیاتوکاغذاتِ نامزدگی پردستخط انکے نہیں تھے اکثروبیشترکاغذاتِ نامزدگی نامکمل ہیں یاامیدواربذاتِ خودپیش ہونے سے قاصر ہے ان حالات میں ریٹرننگ افسرکے پاس یہ کاغذات مستردکرنے کے سواکوئی چارہ باقی نہیں رہتا۔جس کی آڑلیکرتحریک انصاف نے رونا دھوناشروع کردیایہ امرباعث حیرت ہے کہ تحریک انصاف کے امیدواران یاراہنما چاہتے ہیں کہ وہ ریاستی اداروں پرحملہ آورہوں ،قومی تنصیبات کوجلائیں ، ثقافتی ورثہ کو تباہ وبربادکردیں مگرانکے خلاف مقدمہ قائم نہ ہو،وہ کسی عدالت میں پیش نہ ہوں ،کسی تھانے میں حاضرنہ ہوں اور انہیں کوئی ہاتھ تک نہ لگا ئے بلکہ جب انتخابات کاوقت آئے توالیکشن کمیشن یاتو کاغذاتِ نامزدگی انکے گھرپہنچائے یااگریہ تکلیف گوارانہ ہوتوانکے نامکمل کاغذات جیسے ہے جہاں ہے کی بنیادپرمنظورہوں۔ یہ توممکن نہیں کسی بھی ملک میں شہریوں کومادرپدرآزادی میسر نہیں انتخابات میں حصہ لینے کاارادہ ہوتوانتخابی قواعد وضوابط اوررائج طریقہ کارکی پابندی لازم ہے ورنہ آپکے کاغذاتِ نامزدگی اسی طرح مستردہونگے جس طرح گزشتہ کئی انتخابات میں نامکمل کاغذات مستردہوچکے ہیں یہ انوکھی بات نہیں مگراسے بھی تحریک انصاف کے نئے چیئرمین نے انتقامی کاررروائی قراردیااوراسکے خلاف عدالتوں سے رجوع کرنے کااعلان کیا تحریک انصاف کاکمال یہ ہے کہ اسکی سابقہ اورموجودہ قیادت سچ سے زیادہ جھوٹ پریقین رکھتی ہے اوراسے یہ زعم ہے کہ ان کاجھوٹ سچ مان لیاجاتاہے اسلئے یہ چاہے جتناجھوٹ بولیں ،بول سکتے ہیں اورانکے سوشل میڈیاورکرزاسے سچ ثابت کرنے کیلئے متحرک رہتے ہیں۔ مگراب کالے کوسفیدثابت کرنے کازمانہ نہ رہا۔ لیول پلینگ فیلڈ کیلئے جوڈھنڈوراپیٹاجارہاہے یہ عبث ہے لیول پلینگ فیلڈانہیں دستیاب ہے مگرانکے لیول پلینگ فیلڈکاپیمانہ الگ ہے انکی خواہش ہے کہ تمام ادارے انکے ساتھ تعاون کریں اورانہیں جتواکرحکومت سونپ دیں جوممکن نہیں ۔کیونکہ تمام ادارے تہیہ کرچکے ہیں کہ آنے والے انتخابات صاف وشفاف ہونگے اوراس میں ہرجماعت کولیول پلینگ فیلڈ مہیاکی جائیگی ۔