پشاور چیمبر آف سمال ٹریڈرز اینڈ سمال انڈسٹری کے نئے آفس کی افتتاحی تقریب ہو ئی ۔ تقریب کے مہما ن خصو صی مہما ن خصو صی پشاورمیں تعینات آذربائجان کے سفیر خضرفرہاد، سابقہ گورنر خیبرپختونخواہ حاجی غلام علی، مئیر پشاور حاجی زبیر علی، سابقہ صوبائی وزیر صحت آغہ سید ظاہر علیشاہ نے شر کت کی ۔ پشاور چیمبر گروپ لیڈر ملک مہر الہی، صدر سلمان الہی ملک، سینئر نائب صدر حاجی لال جان، نائب صدر سعید اللہ ایگزیکٹیو ممبران نے آنے والے مہمانوں کا استقبال کیا۔سا بقہ گو رنر خیبر پختو نخوا غلا م علی نے چیمبر آف سمال ٹریڈرز اینڈ سمال انڈسٹری کے نئے آفس شیخ یاسین گولڈ ٹاور مسجد مہابت خان روڈ کا فیتہ کاٹ کر باضابطہ افتتاح کیا۔ تقریب میں مختلف ٹریڈ یونیز اور تاجر رہنماوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ تقریب کے اس موقع پر آزربائیجان اور پاکستان کے مابین تجارت کے فروغ مختلف کاروباری شعبوں کی امپورٹ ایکسپورٹ، سیاحت کے فروغ، آسان ویزہ پالیسی اور سفری سہولیات اور پشاور ائیر پورٹ سے سفری سہولت دینے کے ساتھ مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ تاکہ دونوں ممالک کے مابین تجارتی سرگرمیوں کو بڑھایا جاسکے۔ اور دونوں ممالک معاشی ترقی کے لئے ایک دوستانہ ماحول میں آگے بڑھ سکے۔ ازرباہیجان کے سفیر نے بزنس کمیونٹی کو اپنے ملک دورہ کرنے کی دعوت دی کہا کہ ایکسپورٹ کے حوالے سے بہت سے شعبوں میں مواقع موجود ہیں جس میں سرمایہ کاری کرکے بہتریں زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے۔ اور دونوں ملکوں کے مابین تعلقات بھی مزید استوار ہونگے۔ اس سلسلے میں کاروبار کے فروغ کے لئے مختلف تجارتی ایکسپوز میں اپنی مصنوعات متعارف کروا سکتے ہیں۔ معزز مہمانوں نے پشاور چیمبر اور یہاں کے لوگوں کا استقبال کرنے پر شکریہ ادا کیا۔ پشاور چیمبر گروپ لیڈر ملک مہر الہی نے روایتی قلہ اور شال پیش کی۔ پشاور چیمبر صدر سلمان الہی ملک نے سونیر پیش کی۔ اور تمام معزز مہمانوں کا شرکت پر شکریہ ادا کیا۔
فوج کے خلاف بیان بازی
وصال محمدخان
فوج کے خلاف بیان بازی
یہ امرانتہائی افسوسناک ہے کہ دورِحاضرمیں ہماری سیاست فوج کے گرد گھوم رہی ہے خودساختہ انقلابی ہرچھوٹابڑاسیاستدان فوج کیخلاف
منہ سے جھاگ اڑاتاہوانظرآتاہے ۔اس نارواروش کاآغاز گزشتہ دوبرسوں سے تحریک انصاف نے کیاہے اب آہستہ آہستہ ایمل ولی،مولا نافضل الرحمان،اسدقیصراوردیگربھی اس کاحصہ بن چکے ہیں ۔عمران خان توکافی پہلے سے اپنی سیاست فوج ہی کے نام پرچمکارہے ہیں۔ مگرگزشتہ عام انتخابات میں ناکامی کے بعدایمل ولی خان اورمولانافضل الرحمان نے بھی فوج کو نشانے پررکھ لیاہے ان دونوں کی جماعتیں پی ٹی آئی کے ہاتھوں نقصان اٹھاچکی ہیں۔اے این پی جوگزشتہ ستربرسوں سے صوبے کی ایک مضبوط سیاسی قوت تھی پختون بیلٹ میں اس کامضبوط ووٹ بنک موجودتھاوہ قیام پاکستان سے قبل اوربعد میں آٹھ مرتبہ صوبائی حکومتوں کاحصہ رہ چکی ہے مگرگزشتہ تین انتخابات سے اسکی کارکردگی روبہ زوال ہے2008ء انتخابات میں چالیس سے زائدصوبائی اوردس قومی نشستیں حاصل کرنیوالی اے این پی کے پاس صوبا ئی اسمبلی میں واحد نشست پشاورسے حیدرہوتی دورکے وزیرارباب ایوب جان مرحوم کے بیٹے ارباب عثمان نے حاصل کی ہے ۔2018ء انتخابات میں اے این پی کی کارکردگی اگرچہ اس معیارکی نہیں تھی مگراسکے پاس صوبائی اسمبلی میں دس اورقومی اسمبلی میں حیدرہو تی کی واحد نشست موجودتھی ۔ گزشتہ انتخابات میں اے این پی کی ناقص کارکرد گی سے صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن کی حالت بھی پتلی ہے اور یہ اجلاس ریکوزٹ کرنیکی سکت بھی نہیں رکھتی ۔ اے این پی اس صوبے کی ہرلحاظ سے بہترین سیاسی جماعت ہے وہ دہشت گردی کے خلاف دوٹوک مؤقف رکھتی ہے، تعلیم پرتوجہ کے اعتبار سے اس کاگزشتہ دورِحکومت مثالی رہا ،اسکے پاس سمجھداراورقابل افرادکی ٹیم موجودہے ،وہ قربانیوں کی طویل تاریخ رکھتی ہے مگرصوبے میں اس کاووٹ بنک سکڑچکاہے۔مولانافضل الرحمان کے والدمفتی محمودصوبے کے وزیراعلیٰ رہے۔ 2002ء انتخابات میں ایم ایم اے پلیٹ فارم سے اکرم درانی وزیراعلیٰ بنے اسکے بعدگزشتہ تین انتخابات میں اسے وہ پوزیشن حاصل نہ ہو سکی یہ صوبائی اسمبلی میں دس بارہ اورقومی اسمبلی میں پانچ سات نشستوں تک محدودہوچکی ہے 2002ء انتخابات کے سواوہ صوبائی اسمبلی کی قابل ذکر قوت کبھی نہیں رہی۔ گزشتہ تین انتخابات میں اسے بھی اے این پی کی طرح پی ٹی آئی نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایاہے ۔دونوں شکست خوردہ جماعتیں ببا نگ دہل اپنی شکست کیلئے فوج کوذمہ دارٹھہرارہی ہیں ۔عمران خان چونکہ فوج کے خلاف بیانات کااستعمال کرکے مقبولیت سمیٹنے کے دعویدارہیں جس کے پیش نظر ان دونوں جماعتوں نے بھی یہی روش اپنائی حالانکہ انکے پاس انتخابات میں فوج کی مداخل ت یانتایج تبدیل کرنے کے کوئی ٹھوس ثبوت موجودنہیں دونوں محض سیاسی بیان بازی کی حدتک دھاندلی کے الزامات لگارہی ہیں جبکہ اس حوالے سے کسی متعلقہ فورم پر کوئی ثبوت پیش نہیں کیاجاسکا ۔مولاناصاحب سمجھتے ہیں کہ ڈی جی آئی ایس پی آرنے پریس کانفرنس میں انہیں مخاطب کیا ۔انہوں نے9مئی کوپشاور میں خطاب کے دوران فوج کوسقوط ڈھاکہ کے طعنے بھی دئے مولانافضل الرحمان جیسے مدبراورجہاں دیدہ سیاستدان سے اس طرز گفتگوکی توقع نہیں تھی ۔ایک توجوسانحہ گزرچکاہے وہ قومی تاریخ کاسیاہ باب ہے اس میں فوجیوں سمیت سیاس تدا نوں کاکرداربھی نظراندازنہیں کیاجا سکتا۔ اِدھرہم ،ادھرتم کانعرہ فوج کانہیں تھا۔قومو ں کی زندگی میں آنیوالے سانحات کیلئے کسی ایک فردیاادارے کوذمہ دارنہیں ٹھہرایاجاسکتا مولاناپرآجکل فوج کے خلاف بیان بازی میں عمران خان کوپیچھے چھوڑنے کی دھن سوارہے ورنہ وہ فوج کے خلاف جس قسم کی گفتگوکررہے ہیں یہ ان جیسے سیاستدان کاخاصہ نہیں۔ اگروہ فوج کوسیاست سے بے دخل کرناچاہتے ہیں یاعوامی راج لاناچاہتے ہیں یہ امورپارلیمنٹ کے ذریعے ہی انجام دئے جاسکتے ہیں دوچار سال قبل انہوں نے پراسرارطور پرجودھرناختم کیاتھااور مبہم اندازمیں جس جانب یقین دہانی کے اشارے کئے تھے آج ان پر فوج کوسیاست سے کنارہ کش کرنیکاخبط سوارہو چکا ہے حالانکہ جنرل باجوہ سیاست میں عدم مداخلت کی پالیسی کااعلان کرچکے ہیں اگرواقعی بقول مولانا فوج سیاست میں مداخلت کررہی ہے تووہ مطلوبہ ذرائع کوبروئے کارلاسکتے ہیں وہی ذرائع جنہو ں نے ان سے اسلام آبادمیں پی ڈی ایم کادھرناختم کروایاتھا۔ درحقیقت یہ دونوں جماعتیں سمجھتی ہیں کہ فوج کے خلاف بیان بازی نے ان کاووٹ بنک چھینا ہے انہوں نے ٹھان لیا ہے کہ وہ بھی اپناکھویاوقاراسی طریقے پرچل کرحاصل کرینگی۔حالانکہ ان دونوں کے پاس سیاست کیلئے فوج کے خلاف بیانئے کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے تحریک انصاف کے پروپیگنڈے نے ووٹ بنک چھین کرانکے اوسان خطاکردئے ہیں اوراب یہ خواس باختگی کے عالم میں ادھر ادھر ٹامک ٹوئیاں ماررہی ہیں دونوں جماعتوں کو فوج کے خلاف بیانئے بنانے کی بجائے سیاست کے جدیدطریقے اپنانے چاہئیں پی ٹی آئی کوئی کارکردگی نہ ہونے کے باوجودپروپیگنڈ ے کے بل بوتے دونوں کوپچھا ڑچکی ہے۔ دونوں آپس میں اتحادکامظاہرہ کریں سیاسی احیاء کیلئے پی ٹی آئی کے طریقے ضروراپنائیں انکے ٹارگٹ کواپناٹارگٹ نہ بنائیں دونوں جماعتوں کوادرا ک ہے کہ پی ٹی آئی نے ان کاووٹ بنک چھیناہے اب فوج کے خلاف محاذپریہ دونو ں اسی کے آلہ ء کار بن رہی ہیں اگرجے یو آئی کواپنی جماعت کی مقبولیت کا اتناہی زعم ہے توضمنی انتخابات میں حصہ لیکر ثابت کیاجاتاکہ عام انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے ۔باجوڑضمنی الیکشن میں دونوں کی نچلے نمبر کیلئے بھی فوج کوذمہ دار ٹھہرایاجائیگا؟درحقیقت دونوں جماعتیں پی ٹی آئی کے ہاتھوں اپناووٹ بنک کھوچکی ہیں انہیں کھویاہوامقام حاصل کرنے کیلئے غوروفکراور اپنی پالسیوں پرنظرثانی کی ضرورت ہے۔فوج کویوں بیان بازیوں کانشانہ بناناملک وقوم کے مفادمیں نہیں بلکہ یہ روش ملکی سلامتی کیلئے زہرقاتل ہے۔
پاک فوج: لڑکیوں کی تعلیم کیلئے پشاور میں سکول کا افتتاح
پاک فوج کا لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے پشاور کے قریب درہ موسیٰ میں سکول کا افتتاح کیا۔ پاک فوج نے لڑکیوں کی تعیلم کے لئے پشاور کے قریب درہ موسیٰ میں سکول کا افتتاح کر دیا۔ سکول کا افتتاح پاک فوج کا ” علم ٹولو دا پارہ ” کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ منصوبے سے اب علاقے کی بچیاں بنیادی تعیلم کے حصول سے مستفید ہو سکیں گی۔ پاک فوج نوجوانوں اور خواتین کو بااختیار بنانے کے لئے کئی سکلز ڈویلپمنٹ پروگرامز پر بھی کام کر رہی ہے۔ کافی تعداد میں نوجوان اور خواتین ان پروگرامز سے مستفید بھی ہو چکے ہیں۔ پاک فوج نے علاقے کے لوگوں کو صحت کی بنیادی سہولیات کی فراہمی کیلئے (ڈسپنسری) کا بھی افتتاح کیا۔ بچیوں کے سکول اور ڈسپنسری کے افتتاح پر علاقہ مکینوں نے پاک فوج کا شکریہ ادا کیا۔
آزاد کشمیر میں جاری کشیدگی ، اسباب اور عوامل
آزاد کشمیر میں جاری کشیدگی ، اسباب اور عوامل
عقیل یوسفزئی
آزاد کشمیر میں گزشتہ چند روز کے دوران بعض مطالبات منوانے کے لیے چلائے جانیوالے پُرامن احتجاج نے جس تیزی کے ساتھ پرتشدد واقعات ، حملوں اور کشیدگی کی شکل اختیار کرکے ریاستی رٹ کو سوالیہ نشان بنایا اس پوری صورتحال نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے اور سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ان پرتشدد واقعات اور بعض غیر مروجہ مطالبات کے پیچھے ” کچھ اور ” تو نہیں ہے ؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے دیگر علاقوں کی طرح آزاد کشمیر میں بھی گورننس کے ایشوز اور مسائل پوری شدت کے ساتھ موجود ہیں اور اگر حکومت نے بعض مطالبات کو بروقت تسلیم کرنے پر توجہ دی ہوتی جو کہ مقامی سطح پر جینوئن مسائل تھے تو اتنی تلخی اور کشیدگی کی نوبت نہیں آئی ہوتی تاہم اس تلخ حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ بات اب اتنی بھی سیدھی سادی نہیں لگ رہی جتنی ابتداء میں سمجھی جارہی تھی ۔ انتہائی پرتشدد واقعات ، بعض ناقابل برداشت مطالبات اور منفی پروپیگنڈا کی بھر مار نے بہت سے خدشات پیدا کیے ہیں اور اس ضمن میں عجیب صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب درجنوں ، سینکڑوں مظاہرین نے حکومت کی جانب سے تقریباً تمام مطالبات تسلیم کرنے کے مذاکرات اور اعلانات کے باوجود پھر سے سڑکوں پر نکل کر تشدد کا راستہ اختیار کیا اور ایکشن کمیٹی کے بعض اہم عہدے داروں کے منع کرنے کے باوجود سرکاری گاڑیوں اور املاک کو نقصان پہنچایا ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بنیادی مطالبات تسلیم کرنے کے باوجود وہ کون لوگ تھے جنہوں نے پھر سے تشدد کی بنیاد رکھی اور اس کے ردعمل میں حکومت کو سخت ردعمل دینا پڑا ؟ ۔
آزاد ذرائع کے مطابق پرتشدد جھتوں نے مذاکرات کی کامیابی اور اعلانات کے باوجود بہت منظم طریقے سے مختلف شہروں میں ان سرکاری گاڑیوں پر حملے کئے جن میں پولیس اور دیگر اداروں کے لوگ مذاکرات کی کامیابی کے بعد مختلف علاقوں سے اپنے اپنے مراکز کی جانب واپس جارہے تھے ۔ بعض لوگوں نے سرکاری املاک کو نشانہ بنایا تو بعض نے دھرنے دیکر سڑکوں اور کاروباری مراکز کو کھلنے نہیں دیا ۔ اس تمام تر صورت حال کے تناظر میں بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ بعض ریاست مخالف قوتوں نے اس احتجاج کی آڑ میں معاملات کو اپنے ہاتھ میں لیکر حکومت اور عوام کو لڑانے کی نہ صرف بھرپور کوشش کی بلکہ ان تمام ہنگاموں اور پرتشدد واقعات میں اپنا حصہ بھی ڈالا ۔ کیونکہ ایکشن کمیٹی کے متعدد اہم رہنماؤں نے نہ صرف ان واقعات سے لاتعلقی کا اظہار کیا بلکہ وہ اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کرتے دکھائی دیے کہ یہ سب کون کروارہے ہیں ؟ اس تمام عرصے کے دوران جہاں بھارت کا مین سٹریم میڈیا آگ پر تیل ڈالنے کی پالیسی پر گامزن رہا اور لوگوں کو اکساتا رہا کہ وہ پاکستان کے خلاف جنگ لڑ کر بھارت میں شامل ہو وہاں پاکستان کی ایک مخصوص پارٹی اور اس کے میڈیا منیجرز نے 9 مئی کے طرز پر پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کے خلاف مسلسل پروپیگنڈا مہم چلائی اور یہ کوشش کی جاتی رہی کہ ان پرتشدد واقعات کی لہر اور سلسلے کو پاکستان کے دیگر علاقوں تک بھی پھیلایا جائے ۔ اس مخصوص پارٹی اور اس کے حامیوں نے ایک پروپیگنڈا ٹول کے ذریعے اس کشیدگی کو مطالبات کے حل کی کسی کوشش کی بجائے ” حقیقی آزادی” کی لڑائی قرار دیکر نہ صرف کشمیری عوام کو مزید اکسایا بلکہ اس ” خواہش” کا بھی اظہار کیا گیا کہ پاکستان کی سیکورٹی فورسز کے خلاف مزاحمت کی جانی چاہیے ۔
یہ بھی محض اتفاق نہیں کہ جس وقت مطالبات تسلیم کرنے کے باوجود پھر سے بعض پرتشدد واقعات سامنے آئے اس دوران قومی اسمبلی کے سیشن کے دوران اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان اے پی ایس سانحہ کی انکوائری سمیت بعض دیگر واقعات کے حوالے دیکر آرٹیکل 6 کے تحت کارروائیوں کا مطالبہ کررہے تھے اور ایسا کہتے وقت وہ جذبات میں آکر یہ بھی بھول گئے کہ بقول خواجہ آصف اس سلسلے کا آغاز ایوب خان سے کیا جائے ۔ عمر ایوب خان یہ بھی بھول گئے یا کسی نے ان کو یہ یاددہانی کرانے کی کوشش نہیں کی کہ اے پی ایس سانحہ کی نہ صرف انکوائری ہوئی ہے بلکہ متعدد اہم سرکاری عہدے داروں کے خلاف کارروائیاں بھی ہوئی ہیں ۔ ان سے کسی نے شاید یہ بھی نہیں پوچھا کہ اے پی ایس سانحہ کے وقت خیبرپختونخوا میں کس پارٹی کی حکومت تھی ؟ ۔
تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ آذاد کشمیر میں مسائل کے حل اور مطالبات منوانے کے لیے کیے جانے والے احتجاج کو بعض مذکورہ مخصوص سیاسی قوتوں کے علاوہ بعض ان مقامی طاقتوں نے بھی ہائی جیک کیا جو کہ کئی دہائیوں سے ایک خودمختار کشمیر کی بات کرتے آرہے ہیں اور ان میں سے بعض کو بھارت سمیت بعض دیگر عالمی طاقتوں کی سرپرستی حاصل ہے ۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ پاکستان کو اندرونی طور پر متعدد بڑے چیلنجز کا سامنا ہے خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے بعد آذاد کشمیر جیسے حساس علاقے میں اس طرح کی کشیدگی اور صورت حال کو انتہائی سنجیدگی کے ساتھ لیا جانا چاہیے اور اس فیکٹر کا بھی ادراک ہونا چاہیے کہ اگر 9 مئی کے واقعات میں مبینہ طور پر بعض رعایتوں سے کام نہیں لیا جاتا تو آج اذاد کشمیر میں اس طرح کے افسوسناک اور تشویش ناک صورتحال کی شاید نوبت نہیں آئی ہوتی ۔ لگ یہ رہا ہے کہ اگر اس روایت کو توڑنے کی کوشش نہیں کی گئی تو مستقبل میں مزید جھتہ گرد اس طرح کا رویہ اور راستہ اختیار کرکے ریاست اور معاشرت کو چیلنج کرنے سے نہیں گھبرائیں گے اور ایسے میں بہت خطرناک نتائج برآمد ہوں گے ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت عوام کے جایز مطالبات اور مسائل کے حل پر ہر علاقے میں ہنگامی طور پر توجہ دیکر نظام میں موجود کمزوریاں دور کریں مگر ساتھ میں اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ سیاسی سرگرمیوں ، اظہار رائے اور مطالبات منوانے کی آڑ میں اس قسم کی صورتحال پیدا کرنے والوں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جائے ۔
قومی ویمن کرکٹ ٹیم کو پاکستان ہاؤس میں ہائی کمشنر کی جانب سے ظہرانہ
برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر کی جانب سے لندن کے پاکستان ہاؤس قومی ویمن کرکٹ ٹیم کے اعزاز میں ظہرانہ دیا گیا۔پاکستان ہاؤس میں منعقدہ ظہرانے میں ویمن کرکٹ ٹیم کی تمام کھلاڑیوں سمیت سپورٹ اسٹاف نے شرکت کی۔اس موقع پر قومی ٹیم کی کپتان ندا ڈار نے ہائی کمشنر ڈاکٹر محمد فیصل کو پاکستان ویمن کرکٹ ٹیم کی دستخط شدہ شرٹ کا تحفہ پیش کیا۔ظہرانے کے موقع پر کھلاڑیوں سے بات چیت کے دوران پاکستانی ہائی کمشنر نے قومی ویمن ٹیم کی انگلینڈ کے خلاف سیریز کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔
چترال میں کیلاش وادی کا مذہبی تہوار ’’چلم جوش‘‘ شروع
ہزاروں سال قدیم کالاش تہوار “چلم جوشٹ ” پورے جوش و خروش کے ساتھ وادی رمبور کے معروف ڈانسنگ پلیس (چھارسو) گروم میں شروع ہوا ۔ جس میں مقامی کالاش قاضیوں کی ہدایات کے مطابق رسومات کی ادائیگیاں کی گئیں ۔ کالاش خواتین کی کشیدہ کاری سے مزین لباس دیکھنے سے تعلق رکھتی تھیں ۔ جنہیں زیب تن کئے کالاش جوانسال خواتین نے ڈھول کی تھاپ پر رقص کیا ۔ اور فیسٹول کی رنگینیوں کو چار چند لگا دیا ۔ اس موقع پر ضلعی انتظامیہ کے آفیسران ،کالاش ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ممبران ، سابق معاون خصوصی وزیر اعلی وزیر زادہ اور ملکی و غیر ملکی سیاحوں کی بہت بڑی تعداد موجود تھی ۔ ضلعی انتظامیہ نے حسب روایت فیسٹول کیلئے فل پروف سکیورٹی کا انتظام کیا ہے ۔ اور سیاحوں کی رہنمائی کیلئے ٹورزم پولیس خدمات سر انجام دے رہی ہے ۔ چلم جوشٹ کالاش قبیلے کا سب سے قدیم تہوار ہے ۔ جو سردیوں کے کئی مہینے گزارنے کے بعد بہار کی آمد اور مال مویشیوں کے دودھ کی فراوانی اور نئی فصلوں کی تیاری کی خوشی میں منایا جاتا ہے ۔ چیرک پی پی (چھیر پیئک )اس کی پہلی رسم ہے ۔ جسے اداکیا گیا ۔ اور گھروں کو مقامی پھول بھیشہ (بھیشو ) سے سجایا گیا تھا ۔ جبکہ چھاسو میں اخروٹ کی ٹہنیاں ہاتھ میں لئے ڈانس کرنا اس تہوار کی معروف رسم ہے ۔ تہوار چلم جوشٹ کے بعد کالاش لوگ اپنے مال مویشیوں کو بالائی گرمائی چراگاہوں کی طرف لے جاتے ہیں ۔ جہاں دودھ اور اس سے بننے والی مصنوعات کی فراوانی ہوتی ہے ۔ فیسٹول میں شرکت کیلئے ہزاروں کی تعداد میں سیاح تینوں وادیوں میں موجود ہیں ۔ اور وادیوں کے تمام ہوٹل سیاحوں سے بھرے ہوئے ہیں ۔جن ملکی اور غیرملکی سیاح شامل ہیں ۔فیسٹول تین دن جاری رہے گا ۔ 14 اور 15 مئی کو بمبوریت میں منایا جائے گا ۔ اور فیسٹول کی سب سے بڑی تقریب بتریک ڈانسنگ پلیس (چھاسو) میں ہوگی ۔
ضلع مہمند: غازی بیگ میں زمینداروں کیلئے تربیتی ورکشاپ کا اہتمام
اقوام متحدہ کی تنظیم فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن اور محکمہ زراعت کے باہمی اشتراک سے قبائلی ضلع مہمند غازی بیگ سرکل میں زمیندار برادری کیلئے ایک روزہ تربیتی ورکشاپ کا اہتمام ہوا۔جس میں فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کی فیلڈ فیسلٹیٹر فار مہمند ضیاءالرحمن بھی موجود تھے۔منعقد تربیتی ورکشاپ میں زمینداروں کو مختلف فصلوں اور سبزیوں پرجدید زراعت کے حوالے سے تربیت دی گئی کہ زمیندار جدید زراعت کے ذریعے کیسے ذیادہ پیدوار حاصل کرسکتے ہیں ۔کیونکہ اس سے قبل فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے ماہرین نے تربیتی ورکشاپوں کے ذریعے گندم کی کاشت،کیمیائی کھاد ،بہترپیداوار کیلئے پوٹاش کےاستعمال سمیت فصل سے جڑی بوٹیوںکا خاتمہ اور رونما ہونے والے مختلف بیماروں کی تدارک کا تربیت فراہم کیا گیا تھا ۔جن سے زمیندار برادری نے بہت فائدہ حاصل کیا۔بلکہ انجمن زمیندار ضلع مہمند کے صدر نے زمیندار واٹس ایپ گروپ میں گندم کی ذیادہ پیدوار کیلئے فراہم کردہ معلومات پر پورا پورا عمل کیلئے خصوصی ہدایات بھی جاری کیا تھا۔زمیندار برادرنے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے جاری تعاون پر خصوصی شکریہ اداکیا اور بتایا کہ زمیندار برادری جدید زراعت کے حوالے سے تربیتی ورکشاپس سمیت کیمیائی کھادوں اور اعلیٰ قسم مختلف سبزیوں کی سیڈز سے استفادہ لے رہے ہیں ۔جن سے پیداوار میں واضح اضافہ دیکھنے میں آرہے ہیں ۔انہوں نے بتایا کہ سابقہ نامساعد حالات اور موسمی تبدیلی سے زراعت سب سے ذیادہ متاثر ہوئے ہیں ۔جن کی دوبارہ بہتری اور خوراک میں خودکفالت کیلئے ان جیسے سرگرمیاں انتہائی ضروری ہیں۔زمینداربرادری نے بتایا کہ ضلع مہمند میں اسی فیصد سے زیادہ لوگ زراعت کے شعبہ سے وابستہ ہے۔مگر بیشتر زمینداران جدید زراعت اور زرعی آواز سے محروم ہیں۔زمینداربرادری نے وقتاً فوقتاً مختلف زرعی سرگرمیوں پر محکمہ زراعت اور ڈسٹرکٹ ڈائریکٹر آصف اقبال کا شکریہ ادا کیا۔اور بتایا کہ وہ زراعت کی بہتری کیلئے ہرممکنہ کوشش کررہے ہیں ۔