Wisal Muhammad Khan

خیبرپختونخواراؤنڈاَپ

خیبرپختونخواحکومت اوروزیراعلیٰ ایک بارپھراسلام آبادکی جانب مارچ اوراحتجاج کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔اس مرتبہ انہیں بشریٰ بی بی کی خدمات بھی حاصل ہوچکی ہیں بشریٰ بی بی احتجاج میں شریک نہیں ہونگیں مگرانہوں نے وزیراعلیٰ ہاؤس کوسیاسی سرگرمیوں کا مرکز بناکر ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں اوراحتجاج کی منصوبہ بندی بنفس نفیس کررہی ہیں ۔انکی ایک مبینہ ٓاڈیوبھی منظرعام پرآئی ہے جس میں وہ پختونوں کی غیرت ،حمیت اورجذبہء جہادکوابھارتی ہوئی نظرآرہی ہیں ۔ان کاکہناہے کہ سیاست میں آنے کاکوئی ارادہ نہیں مگرعمران خان کی رہائی کیلئے اپناکرداراداکرناچاہتی ہیں ۔انہوں نے پارٹی راہنماؤں اورعہدیداروں سے ملاقاتیں بھی کی ہیں جس میں پارٹی کے اندرونی اختلافات بھی زیربحث آئے ہیں اختلاف رکھنے والوں کوواضح پیغام دیاگیاہے کہ 24نومبرکے احتجاج تک اپنے اختلافات ایک طرف رکھ کرعمران خان کی رہائی کیلئے کمرکس لیں ۔انکی پردے سے تقریرکے دوران پانچ سوکے لگ بھگ پارلیمنٹرینز اورقدآورسیاسی شخصیات موجود تھیں جنہیں سیاست سے نابلدیااس خارزارمیں نوآموزخاتون احکامات صادرفرمارہی تھیں۔ صوبائی اسمبلی کے ٹکٹ ہولڈرزکوپانچ ہزارجبکہ قومی اسمبلی ٹکٹ ہولڈرزکودس ہزارافرادلانے کی ہدایت بلکہ احکامات جاری کردئے گئے ہیں ۔ اسدقیصرنے وزیراعلیٰ کی موجودگی میں بشریٰ بی بی سے ملاقات کی جس میں انہیں صوابی سے علی امین گنڈاپورکیساتھ مشترکہ طورپر احتجاجی ریلی کی قیادت کیلئے ہدایات ملی ہیں ۔ اس سے قبل سابق سینئروزیراورصوبائی حکومت یاوزیراعلیٰ کے درمیان اختلافات کی خبریں زبان زد عام تھیں مگربشریٰ بی بی کے آنے سے یہ بھی دب گئے ہیں عاطف خان نے احتجاج میں بھرپورشرکت کرنے کے متعدد بیانات جاری کئے ۔بشریٰ بی بی کی ہدایت کے مطابق علی امین گنڈاپور ، اسدقیصراورعاطف خان احتجاج کی قیادت کرینگے۔تادم تحریراحتجاج کیلئے تیاریاں جاری تھیں پشاور،خیبراوردیگراضلاع کے جلوس پشاور جبکہ ،مردان ،نوشہرہ وغیرہ کے جلوس صوابی انٹرچینج پرجمع ہونگے ۔قیادت کیلئے کنٹینربھی تیارکیاگیاہے ۔عمران خان نے گوہر خان اور گنڈاپور کوسٹیبشمنٹ کیساتھ مذاکرات کااختیاربھی دیاہے مگر ساتھ ہی یہ ہدایت بھی کی گئی ہے کہ 21نومبرکے بعدمذاکرات نہیں ہونگے اگر مذاکرات کامیاب ہوئے تو24 نومبرکوجشن منایاجائیگااوراگرناکام رہے تواحتجاج کیاجائیگا۔سٹیبلشمنٹ سے مذاکرات عمران خان کی دیرینہ خواہش ہے جوتاحال پزیرائی سے محروم ہے ۔ تحریک انصاف حالیہ احتجاج کوفائنل کال قراردے رہی ہے اورپارٹی قیادت کو یقین ہے کہ اس کے نتیجے میں عمران خان کی رہائی عمل میں آجائیگی ۔حکومت کوجوشرائط پیش کی گئی ہیں اس سے حکومت کااتفاق ممکن نہیں ۔ ان میں سے ایک بھی شرط مان لی گئی توحکومت کاوجودخطرے میں پڑ جائیگاایسی شرائط بھلاکون مان سکتاہے جس سے اپنے وجودکوخطرات لاحق ہوں۔ خدا کرے احتجاج پرامن رہے اوراسمیں تشددکاعنصرشامل نہ ہوباقی اسکے نتائج عنقریب سامنے آجائینگے۔قوی امکان ہے کہ یہ احتجاج بھی سابقہ احتجاجوں کی طرح ناکام ثابت ہوکیونکہ اس کیلئے کوئی بنیادموجودنہیں ۔بظاہرتو26ویں ترمیم کی واپسی ،انتخابات کاآڈٹ ،کارکنوں کی رہائی اوراس طرح کے دیگر مطالبات رکھے گئے ہیں مگردرحقیقت نہ ہی تواس جماعت یااسکے بانی کو26ویں آئینی ترمیم سے سروکارہے نہ ہی کارکنوں کی کوئی فکرہے اورنہ ہی جمہوریت یاجمہوری آزادی کاغم ہے ۔اصل مقصد عمران خان کی رہائی ہے اوراس رہائی کیلئے عوام کوپولیس اورفوج کے سامنے کھڑاکرنیکی کوشش ہورہی ہے خیبرپختونخواکے لوگوں کوبشریٰ بیگم کی زبانی غیرت دلانے اورجذبہء جہادکوابھارنے کی کوشش بھی ہوئی جس کاایک خاص طبقے کے سواکوئی اثرپڑنے کاامکان نہیں ممکنہ طورپراحتجاج میں وہی لوگ شامل ہونگے جنہیں یاتوممبران اسمبلی لائینگے یاپھروہ ‘‘پانچ ہزاری ’’ ہونگے ۔ان بے مقصد احتجاجوں کیلئے صوبے کے وسائل بے دریغ لٹائے جارہے ہیں بشریٰ بی بی کی جانب سے حکومتی معاملات میں مداخلت کاسلسلہ بھی شروع ہوچکاہے گورنرفیصل کریم کنڈی نے گزشتہ ہفتے کہاتھاکہ صوبے میں ایک حکومت بشریٰ بی بی جبکہ دوسری علی امین گنڈاپورکی چل رہی ہے۔
وصال محمد خان

پولیس ایکٹ2017میں ترمیم; پولیس کے اختیارات میں کمی کردی

صوبائی حکومت نے پولیس ایکٹ2017میں ترمیم کرکے پولیس کے اختیارات میں کمی کردی ہے۔ڈرافٹ کابینہ سے منظوری کے بعد صوبائی اسمبلی سے بھی منظورکروالیاگیاہے۔پولیس پہلی باربلدیاتی نمائندوں ،ریٹائرڈججز،ریٹائرڈبیوروکریٹس ، سول سوسائٹی اورممبران صوبائی اورقومی اسمبلی کوبذریعہ پبلک کمپلینٹ اتھارٹی جوابدہ ہوگی۔وزیرقانون آفتاب عالم کے مطابق پولیس کو دئے گئے اختیارات پر کوئی چیک اینڈبیلنس موجودنہیں تھا۔احتساب اورشفافیت کیلئے پولیس ایکٹ میں ترمیم لائی گئی ہے۔اب پولیس براہ راست عوامی نمائندوں اور وزیراعلیٰ کوجوابدہ ہوگی۔گریڈ18سے اوپرایڈیشنل آئی جی اورڈی آئی جی کی ٹرانسفرپوسٹنگ کا اختیار وزیر اعلیٰ کوحاصل ہوگا۔ جبکہ پولیس سے پوچھ گچھ کیلئے پبلک سیفٹی کمیشن کوختم کرکے پبلک کمپلینٹ اتھارٹی کاقیام عمل میں لایاگیاہے جوضلعی اور صوبائی سطح پرکام کریگی۔ 15 رکنی پبلک کمپلینٹ اتھارٹی میں4حکومتی جبکہ 3اپوزیشن ایم پی ایزہونگے ۔دیگرارکان ریٹائرڈججز، بیورو کریٹس ،سول سوسائٹی کے افراد اوربلدیاتی نمائندے ہونگے۔ضلعی کمپلینٹ اتھارٹی میں تین حکومتی اور دواپوزیشن اراکین ہونگے۔ کانسٹیبل سے اعلیٰ افسران تک کی شکایت اتھارٹی کے پاس آئیگی،اتھارٹی سزاکے حوالے سے کابینہ کوسفارش کریگی جبکہ سزاکاآخری اختیار وزیراعلیٰ اورکابینہ کوحاصل ہوگا۔ پولیس ایکٹ میں ترمیم پرپولیس افسران کوشدیدتحفظات ہیں دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن پرکام کرنے والی پولیس نئی قانون سازی سے نالاں ہے،ایک سینئرپولیس افسرکے مطابق ‘‘پولیس ایکٹ 2017ء تین سالہ محنت کے بعد بنایا گیا تھاجسے موجودہ حکومت نے 24 گھنٹوں میں بے اثرکردیا،جلدبازی میں کئے گئے فیصلے سے عوام پربرااثرپڑیگا ،پہلے سے موجودپبلک سروس کمیشن کوپولیس جوابدہ تھی،جس کے چیئرمین چیف جسٹس پشاورہائیکورٹ ،ممبران میں چیئرمین پبلک سروس کمیشن اور احتساب کمشنرسمیت دیگراراکین تھے،حکومت نے سات سالوں میں اس کمیشن کومحکمہ داخلہ میں دفتر فراہم نہیں کیااوراتھارٹی کیلئے مجاز آفیسرتعینات نہیں کئے کمیشن کوفعال کرنا حکومت کی ذمہ داری تھی غیرفعال کمیشن کوختم کرنادرست نہیں،اب ایک کونسلرپولیس آفیسرکی انکوائری کریگاپولیس افسران سیاسی انکوائریوں میں پھنسے رہینگے توسیکیورٹی کی ذمہ داری کون پوری کریگا؟پختونخواپولیس فورس 1لاکھ 15ہزارافرادپرمشتمل ہے ، ڈی ایس پیزکی ڈائرکٹ تقرری کا اختیار صوبائی حکومت کودینے سے 600 انسپکٹرزکی ترقی کا عمل بھی رک جائیگا’’۔یادرہے پرویزخٹک نے پولیس کومثالی بنانے کے دعوے کئے تھے عمران خان اورپرویزخٹک پولیس ایکٹ2017ء کوتحریک انصاف کاکارنامہ قراردیتے تھے جس کے نتیجے میں پرویزخٹک ترقی پاکر وزیر دفاع بنے تھے جبکہ پولیس کومثالی بنانے والے آئی جی پی ناصردرانی کووفاق میں اہم ذمہ داریاں سونپ دی گئی تھیں۔ اسی پولیس ایکٹ 2017ء میں اب ترامیم کرکے ریورس گیئرلگادیاگیا ہے ۔

وصال محمد خان